کون کون اسٹارٹ اپ دیکھ رہا ہے۔ ؟؟؟ مجھے کہانی کوئی ذیادہ خاص نہیں لگی تھی لہذا میں نے دیکھنے کا ارادہ نہیں باندھا ہاں ایک صفحے کو مضحکہ اڑاتے دیکھا تو بات میں دم دیکھا۔ کوئی ایسے حالات تھے ہیروئن کے کہ وہ اپنی پسند کی جوتی نہیں لے پائی اور اداس تھی مگر ہاتھ میں فون سام سنگ گیلکسی نوٹ 10 تھا اور بیگ گوچی کا تھامے تھی۔یہ میرے نزدیک ایک بڑی غلطی ہے ہدایت کار کی۔ ویسے ایک بات سچ ہے چاہے جتنا بھی غریب گھرانہ دکھا دیں کوریا کا انکے پاس فون بہترین ہوگا۔اسکی وجہ پہلی تو یہ ہے کہ ذیادہ تر ڈرامے اسپانسر ہوتے ہیں بڑئ بڑی کمپنیوں کی جانب سے جیسے آجکل جس کسی ڈرامے کو اٹھا کے دیکھ لیں ہیرو ہیروئن کے پاس فون ہوگا سام سنگ کا نیا فلپ ہر رنگ میں۔ اب چونکہ فلپ نیا فون ہے فورا اس پر توجہ جاتی باقی لمبے چھوکر استعمال ہونے والے فون تو سب ہی ایک جیسے لگتے۔ دوسرا آپ لوگوں نے اگر غور سے دیکھا ہو تو ہر ہی ڈرامے میں تقریبا کوئی نہ کوئی کیفے ریستوران بالواسطہ یا بلا واسطہ دکھایا جاتا ہے جہاں بہت ہی اہم گفتگو ہونی ہوتی ہے۔ اب تک سب سے بھونڈے انداز میں کنگ ایٹرنل مونارک میں ایسی اشیا ء کی تشہیر کی گئ کہ پوری سماجی روابط کی ویب گاہوں پر مزاق اڑایا جاتا رہا۔ ہر اہم موقع پر لی من ہو فالتو میں کسی کافی کی تعریف کرتا ہے تو کبھی انفرا ریڈ ہیلمٹ چڑھائے چہرے پر اپنے حسن کی حفاظت کرتا نظر آتا ہے۔ ابھی ذومبی ڈیٹیکٹیو میں ہیرو ایک بی بی کریم کے پیچھے پاگل ہوتا دکھایا ہے۔ تو جناب یہ حقائق ہیں کہ ہم جو بھی دیکھ رہے ہیں وہ ہماری پسند ناپسند سے دور ہم پر مسلط بھی ہے۔ تازہ ترین ڈرامہ مور دین جسٹ فرینڈز کوریا کی سیاحت کے تعاون سے پیش کیا جارہا ہے۔ خطاطی جیسا ہنر جو مختلف سافٹ وئیرز کے آنے کے بعد معدوم ہوتا جا رہا ہے اسکا فروغ کیا جا رہا ہے یہاں تک کہ ڈیجیٹل ٹیبلٹ پر ہیروئن ہاتھ سے خطاطی کر رہی ہے جو اگر احمقانہ لگتا ہے دیکھنے میں لیکن اس میں انکی یہ سوچ پنہاں ہے کہ ہر پرانی ثقافتی چیز کا تحفظ حکومتی سطح پر فرض بن جاتا ہے وہیں ہیرو فوٹوگرافر ہے اور انوکھے انوکھے انداز میں کوریا کے مقامات کی بہترین عکاسی کرتا ہے جس سے آپ کے دل میں خود بخود کوریا کی سیر کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔
تو یہ تھی پہلی وجہ دوسری وجہ ہے ہماری ترجیحات۔
ہم چاہے کوریا جیسے ترقی یافتہ ملک میں گھرے ہوں یا پاکستان جیسے نیم خواندہ غیر ترقی یافتہ ملک کے باسی۔ ہماری ترجیحات کا تعلق عقل سے نہیں دل سے ہوتا۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جنہوں نے پیسہ پیسہ جوڑ کر مہنگا فون لیا یا مہنگا ترین فون لینے کی حسرت دل میں پال رکھی ہےجسکی وجہ سے ہم بہت سی اپنی اہم ضرورتیں ٹال۔جاتے ہیں اپنے گرد لوگوں کے حالات سے نظر چرا جاتے ہیں۔عجیب لگتا ہے نا کہ ہم وہ بچے ہیں جو بیس پچیس سال کے ہو کر بھی والدین کے پیسوں پر پل رپے ہیں۔پارٹ ٹائم نوکری کرنا کسی ہوٹل پر برتن دھونا قابل شرم ہے ہمارے لیئےمگر مہنگے فون کیلئے دن رات محنت کرکے پیسہ اکٹھا کرنے والے والدین سے ضد کرنا قابل فخر ہے جو اپنی جانے کتنی خواہشیں ضرورتیں دبا گئے ہماری فرمائش پوری کرنے کیلئے اور آخر میں جب ہمارا آدھے سے ذیادہ ملک غربت کی لکیر کے نیچے رہ رہا ہے شائد ہمارا کوئی پڑوسی بھوکا ہوتا ہے جب ہم فوڈ پانڈا سے مہنگے پکوان منگوا کر زبان کا چسکا پورا کر رہے ہوتے ہیں۔ بے شک ہم اسی قابل ہیں کہ ہمیں ایسی لاحاصل خواہشات میں کارپوریٹ سیکٹر (سرمایہ دار طبقہ) میں مبتلا کر کے فائدہ اٹھائے ہمارا۔۔