انتقام پر تو کئی فلمیں ڈرامے بنے ہیں مگر پہلی بار کسی محاورے پر فلم یا طویل دورانیے کا ڈرامہ جو کہہ لو بنا ہے۔ آشن۔
جناب جو جو کنگڈم موسم اول و دوم دیکھ چکے انکو لگ پتہ گیا ہوگا کہ کیسی عجیب بیماری پھوٹی تھی کہ انسان مرنے کے بعد زندہ ہوجاتا ایک پودے کا سری الاثر زہر خون میں سرائیت کر جانے سے اور پھر چلتا پھرتا درندہ خوں آشام بلا بن کر انسانوں کو کھانے لگتا۔ پہلے موسم میں دکھایا کہ ایک حکیم یا طبیب جو بھی سمجھ لیں نے مرتے بادشاہ کا علاج آکو پریشر تکنیک کے ذریعے اس پودے کا گودا خون میں داخل کرکے علاج کیا تھا جوابا شکریئے کے طور پر بادشاہ نے اسی کا شاگرد کاٹ کھایا ۔ اسکی لاش ایک گائوں میں لائی گئ جہاں اس لاش کو پکا کر سوپ بنا کر ایک ملازم نے سب کو کھلا کر سب کو بادشاہ جیسا درندہ بنا ڈالا تھا۔ تو آشن کہانی ہے اس سے پہلے کی آخر حکیم صاحب کو ایسا نادر مشورہ کس نے دیا تھا۔ آشن نے۔ اس جواب پر پوری ڈیڑھ گھنٹے کی قسط دیکھو جسکو دیکھتے ہوئے خیال گزرے گا کہ بھئ آخر یہ کنگڈم کی سیریز کا ہی حصہ ہے یا کوئی اور فلم دیکھنے بیٹھ گئے غلطی سے۔۔
کہانی شروع ہوتی ہے ایک فتنی بچی سے جو ایک گائوں میں رہتی ہے۔ اس گائوں کو کئی جانب سے حملہ آوروں کا خطرہ رہتا۔ نیز اسکے قریب ہی ایک غیر آباد جنگل ہے جہاں سے کوئی زندہ واپس نہیں آتا اور کئی سو سال سے بند ہے۔ یہ موصوفہ وہاں کے آثار قدیمہ کھودنے پہنچتی ہیں اور انکو ایک دیوار پر تصویری کہانی کے ذریعے اس پودے کا سراغ ملتا ہے۔ انکی والدہ بیمار ہیں مگر یہ انکا علاج اس پودے سے کرنا چاہتی ہیں۔ انکے ابا ایک جاسوس ہیں دوسرے قبیلے کے بھیس بدل کر رہتے ایکدن انکو دوسرے علاقےجا کر افواہیں پھیلانے کا حکم ملتا تو یہ۔جاتے وقت آشن کو حکم دیتے کہ بھئ تم گھر والوں کا خیال رکھنا ایک بچی کو ایسا حکم دینا اس فتنے کا آغاز ہے جو آشن نے مسلط کرنا ہے گائوں پر۔ ایکدن انکی والدہ بیمار ہوتی ہیں آشن جنگل جا کر وہ پودا ڈھونڈ کر لاتی ہے تو پتہ چلتا ہے پورا گائوں کاٹ دیا گیا ہے آگ خون لاشیں کیا منظر بچی کو دیکھنا پڑتا۔ بس یہ ٹھان لیتی ہے بدلہ لینا ہے۔کیسے لینا؟ پورے ملک میں یہی منظر پھیلا کر۔ کیسے۔۔ اب فلم دیکھو۔
کہانئ سے اسباق ملتے۔
ہرن کیلئے۔
او بھئ گھاس خور ہرنے جب یہ پتے چبا لیئے اور امر ہوگئے تو یہ کیوں بھول گئے کہ اب تم گوشت خور بھی ہو گئے ہو۔سخت افسوس ہوا جب شیر تمہیں چیر پھاڑ رہا تھا۔ او بھائئ یہ ہوتا گنجے کو ناخن ملنا۔جب غرا غرا کر یہ شیر کو گھور رہا تھا تو مجھےلگا تھا کہانی پلٹ جائےگی شیر کو ہرن کھاجائے گا مگر نہیں۔ ہرن ہرن ہی رہا۔ جتنی چاہے طاقت مل جائے کھانی گھاس ہی ہے۔
شیرکیلئے۔
بے چارے نے کھایا اتنا نہیں جتنا اس پر الزام لگتے رہے ۔یہ شیر مجھے وہی شیر لگا جو ہمیں ووٹ ڈالتے وقت نظر آتا
ایک وقت وہ بے چارہ سوائے جنگل میں گھومنے ہرن وغیرہ کھانے کے کسی کو معمولی نقصان بھی نہیں پہنچا رہا الٹا اس پر جنگل میں آنے والے انسانوں کے قتل کا الزام بھی لگا دیا اور اسکو شیر سے بڑے مہلک شکاریوں نے گھیر کر مار بھی دیا۔شیر کی دکھ بھری کہانی پر آنکھوں میں آنسو آئیں گے تو احساس بھی ہوگا کہ شیر سے ذیادہ بڑے درندے اس پر الزام لگانے والے جوزن دور کے فوجی تھے۔
بادشاہ اور اسکے چھوٹے موٹے تمام شاہی ارکان شوری کے۔
اماں تم سب جو چھوٹے موٹے جھوٹ بول کر عوام پر جنگیں مسلط کرتے ہو نا اسکا سخت اور بھیانک انجام بھگتنا پڑتا ہے تم لوگوں کو۔ مگر صرف کہانیوں اور فلموں ڈراموں میں۔ اصل میں تو اپنے ملک کی مثال لے لو۔ کبھی ہم طالبان سے لڑتے کبھی ان میں اچھے برے طالبان ڈھونڈتے کبھی بھارت ہمارا دشمن ہوتا کبھی ہم اس سے تعلقات کے خواہاں ہو جاتے اور اس سب میں بھوکے مر رہے عوام۔ اور چونکہ اس عوام میں کوئی نڈر آشن نہیں تو ہمارے بادشاہوں کا کوئی بھیانک انجام بھی نہیں لگے ہیں سب ٹرک کی بتی کے پیچھے۔
آشن کے ابا کیلئے۔
بھئی پہلی فرصت میں مر جائو۔ ورنہ تمہارے قتل کا بدلے لینے کیلئے آشن تو آہی رہی ہے۔ بلا وجہ اسکا کام بڑھایا۔ اگلی نے قتل و غارت مچا دی تو پتہ چلا ابا زندہ ہیں بے چاری کو ابا کے کہنے پر خود انکو قتل کرنا پڑا۔اب بندہ پوچھے جن ابا کے قتل کا بدلہ لینے پر کہانی بڑھائی انکی قاتل تو خود بن گئیں اب کیا خود سے بھی بدلہ لے گی اگلے موسم میں؟
آشن کیلئے۔
مجھے نہیں پتہ تھا کہ سور کاگوشت کھانے سے ہی نہیں سوروں کے ساتھ رہنے سے بھی سوروں کی خوبیاں انسانوں میں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ اتنی بڑی درندی بن گئ ہیروئن سوروں کے طبیلے میں رہ رہ کر کہ حیرت ہو۔ایسے ایسے ظالمانہ طریقوں سے بدلہ لیا کہ روح کانپے۔ اوپر سے ایسے آئیڈیئے آئے اسے اپنی خاندان کو زندہ رکھنے کیلئے کہ۔۔۔اور
ایویں نہیں مغرب کے وقت بچوں کو الٹی سیدھی جگہوں دور چھت تک پر جانے نہیں دیا جاتا یہ موصوفہ دو وقت ملنے کے وقت جو پودے توڑ کر لائیں اب بھگت پورا جوزن رہا ہے۔ اس فتنی بچی نے کیا کیا چاند نہ چڑھائے۔اف دیکھنے کے قابل ۔ اسکو دیکھنے سے مجھے خود کش حملہ آور یاد آئے۔ سیدھا یہ خود کش حملہ آور ہیں یہ موصوفہ۔ مگر ایک منظر دل چھو گیا جب سور اس بچی کے پیچھے بھاگتا آتا ہے اور یہ درخت پر پائوں رکھ کر خوبصورتی سے گھوم کر تیر کمان سے نشانہ لیتی ایکدم سے مڑتے وقت ہیروئن بن جاتی بہت عمدگی سے فلمایا زبردست۔ تھیبا اورشاباش۔
ذاتی رائے
جیسا کہ میں نے بتایا کہ طویلے کی بلا بندر کے سر پر فلم بنی ہے۔ کرے کوئی بھرے کوئی۔ اب دو قبیلوں کی جنگ میں ایک سپاہی کے جھوٹ بولنے سے جو قتل و غارت کا بازار گرم ہوا اسکو اگر خوں آشام بلا کو کرونا سمجھ لیں اور ان دو قبیلوں کو ہندوستان اور پاکستان تو یقین کیجئے 72 سالوں سے یہی کچھ ہو رہا ہمارے ساتھ۔ بس کسی آشن کی کمی ہے جو ان سب کو مزا چکھا سکے۔ باقی چونکہ ابتدا اس بیماری کی کیسے ہوئی اس پر طویل دورانیئے کی قسط بنائی ہے تو دیکھ لیں خاص کر اگر کنگڈم 1 اور 2 دیکھا ہوا اور نہیں دیکھا ہوا تو پہلے اس کو دیکھ لو پھر باقی موسم دیکھنا۔ فلم میں ہدایتکاری کی وہ مثال ہے ہے اخیر۔شیر اور ہرن بہت حقیقی بنائے ہیں جب قتل و غارت ہو رہا ہوتاہے تو اتنا اصل لگتا ہے کہ ہم تاریخ رقم ہوتے دیکھ رہے ہوں جیسے۔ ماننے والی بات ہے کورینز کو فلمیں ڈرامے بنانے آتے ۔ بہت مزا آیا دیکھ کر ۔ اور اگر صرف تفریح طبع کی نیت تو اسکو دیکھنے کے بعد کچھ اور بھی دیکھ لینا