2019 /2020
کاشدید ہائی ریٹنگ لے اڑنے والا ڈرامہ کریش لینڈنگ آن یو جس میں پاک بھارت کی طرح کتے والی لڑائیاں کرنے والے دو ممالک جنوبی اور شمالی کوریائی باشندوں کی کہانی
کہانی شروع ہوتی ہے ایک عدد لڑکی جو کہ جنوبی کوریائی شہری ہے پیرا گلائیڈنگ کرکے اڑتی ہے اور طوفان آجاتا ہے اور وہ جا گرتی ہے شمالی کوریا میں۔وہاں مل جاتے ہیں گھنے جنگل میں ایک عدد وجیہہ رحمدل اوپا جو فورا انکی مدد کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور آخری قسط تک ان باجی کیلئے کتا خواری کاٹتے ہیں۔
2020 kdrama crash landing on you urdu review desikimchi
crash landing on you
کریش لینڈنگ آن یو
کہانی شروع ہوتی ہے ہیروئن کے ہوا میں اڑ کر شمالی کوریا جا پہنچنے سے اور ختم ہوتی ہے ہیرو کے سرنگ میں رینگ کر جنوبی کوریا پہنچنے میں ۔
درمیان کے سب دو درجن کردار انکے ساتھ بے وجہ ہی کتا خواری کاٹتے ہیں ۔
اس کہانی سے سبق بھی ملتے ہیں۔
سائیڈ ہیروئن کیلئے
بھئی بھلے تم ہیروئن سے کم عمر خوبصورت پڑھی لکھی اچھے اخلاق و کردار کی کیوں نہ ہو ہیرو نے گھاس کھودنی ہے مطلب تمہیں گھاس نہیں ڈالنی مطلب گھاس سے دوستی کی تو گھوڑا کیا کھائے گا ۔ اب یہ ضرب المثل یونہی بیچ میں آگئ گھاس گھاس اتنا ہو رہا ہے تو سوچا یہ بھی لکھ ماروں۔خیر موصوفہ رج کے منحوس واقع ہوئی ہیں۔ جس سے شادی گھر والوں نے طے کی اسے آٹھ سال بعد کوئی اور بونگی سی لڑکی پسند آگئ اب دل آئے گدھی پر تو پری کیا چیز ٹوٹ گیا انکا دل پھر ٹوٹے دل کو جوڑنے اوپا آئے انہیں محبت بھی ہوئی مگر عین انکا رشتہ مانگتے ہی گولیاں کھا کر ملک عدم روانہ ہوگئے مطلب ایسی لڑکیاں ہوتی ہیں جن کی شادی ہو تو دولہا شادی کی خوشی میں کی جانے والی فائرنگ کی ذد میں ہلاک ہوجاتا ہے یا عین بارات لاتے وقت ٹرک کے نیچے آکر جان کی بازی ہار جاتا ہے اور اگر شادی ہو جائے تو پہلے بچے کے دنیا میں آنکھیں کھولنے سے قبل ہی موبائل چھیننےوالے ڈاکو کی فائرنگ کا شکار ہو کر آنکھیں بند کر لیتا ہے
ہمیشہ کیلئے۔۔
اور یہ موصوفہ گھر میں ہل کر پانی نہ پینے والی ماں کا ہاتھ نہ بٹانے والی اس ہیرو کیلئے مفت کی نوکرانی بن کر کھانے پکا پکا کر کھلاتی رہیں
سائیڈ ہیرو کیلئے۔
بھئی ہر انسان کو پتہ ہونا چاہیئے کے ڈرامہ کی دنیا میں سائیڈ ہیرو صرف ہیروئن کے کام آنے کیلئے ہوتے ہیں ان صاحب نے عقل کا استعمال کرتے سائیڈ ہیروئن پٹائی اس سے سارا ڈرامہ اپنی ذاتی خدمت کرواتے رہے اور خود اسکیلئے اوبر ڈرائور بن کر کہاں کہاں نہیں پک اینڈ ڈراپ دی مگر چونکہ ٹھہرے سائیڈ ہیرو عین اس وقت جب سائیڈ ہیروئن کو پٹا کر شرافت سے شریف زندگی گزارنے ملک سے باہر روانہ ہو رہے تھے اپنا ٹکٹ پھاڑ کر گولی کھانے زیر تعمیر عمارت میں جا پہنچے ۔ مرتے وقت چونکہ دانش سے طبی معلومات نہیں لیکر گئے تو بس ایک جملہ مکمل کرکے مر گئے۔ یہاں چونکہ مصنف خلیل الرحمان قمر کی طرح کوئی چربہ کہانی لکھ کر آخر میں بڑی چول مارنے والا نہیں تھا سو سائیڈ ہیرو کے آنکھیں بند کرتے ہی جھٹ آکسیجن ماسک نکال کر منہ پر کپڑا بھی وین میں ہی ڈال دیا اور قیمتی آکسیجن بچا لی۔
معاون کرداروں کیلئے۔
جانے یہ کیوں تھے؟ اور جانے انکو جنوبی اور شمالی کوریا میں انکی ہیروئن کے پیچھے کتا خواری کاٹنے کی کیا وجوہات رہیں تاہم سولہ قسطیں انہی کے دم سے پوری ہوئیں ورنہ آنیاں جانیاں میں دو قسطیں بھی ضرورت سے ذیادہ تھیں
ہیرو کیلیئے۔
بھئی اگر آپ کی بد قسمتی آپکا پیچھا کر رہی ہےتو بھی آپ کو کس احمق نے مشورہ دیا تھا کہ سرحد کی حفاظت کرتے کرتے لڑکی کی حفاظت پر تل جائیں۔ لڑکی بھی وہ جس نے پہلے دن سے بے دام غلام سمجھا۔ گھر میں برتن دھونے کے صابن ہی سے سال چھے مہینے میں ایک آدھ بار نہانے والا دو درجن خوشبو والے صابن شیمپو خریدتا پھرا ۔ اوپر سے اس لڑکی جو کہ پتہ بھی تھا کہ موصوفہ طوطا چشم ہیں بھوکی ندیدی ہیں اسکو جب ایک بار گولی کھا کر دنیا جہان کی صعوبتیں جھیل کر اگر واپس جنوبی کوریا پہنچا دیا تھا تو مزید اسکی فکر میں ہلکان ہو کر کس پاگل کتے کے کاٹنے پر جنوبی کوریا جا پہنچے ؟
ہیروئن کیلئے۔
بھئ کمینی بنو خود غرض بنو سب تمہارے لیئے کتا خواری کاٹیں گے۔ پورا ڈرامہ جو ان موصوفہ سے لمحہ بھر بھی ملا اس سے انہوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ وہ تو ڈرامہ ختم ہو گیا ورنہ ڈرامے کے آخر تک ڈرامہ دیکھنے والے بھی اسکا منظر آنے پر منتظر نظروں سے دیکھنا شروع ہو جاتے کہ بھئ جی ہمارے لائق کوئی خدمت ؟ ہم کیا کریں آپکے لیئے؟
ذاتی رائے۔
آدھا ڈرامہ تجسس سے بھر پور ہے آدھا رومان سے۔ دو دو قسطیں جس طرح ہیرو ہیروئن محبت میں مبتلا ہو رہے تھے اور بار بار اظہار بھی کر رہے تھے دل کر رہا تھا ڈرامے کا نام کریش لینڈنگ آن یو سے بدل کر کرشنگ آن یو رکھ دوں۔ جنوبی کوریا کو جنت نظیر دکھایا یہاں کے باشندے تو خوشیوں کے ہنڈولے میں جھولتے ہیں مفت کی مٹھائیاں کھاتے ہیں ہر روز حکومت کی جانب سے ۔ اور شمالی کوریا والے لتر گو کسی حد تک درست ہے مگر یہ ڈرامہ شمالی کوریا کی ویسی ہی عکاسی کرتا ہے جیسے ہندوستان اپنئ فلموں میں پاکستان کی کرتا ہے۔
انجام سے شدید اختلاف مجھے اس ڈرامے میں جب آخر میں لگنے ہی لگا تھا کہ یہ جملہ لکھنا رہ گیا ہے کہ اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے سائیڈ ہیرو کو بے وجہ مار دیا۔
جب ہیرو کو فوج سے استعفی دلوا کر سوئٹزر لینڈ میں منتقل کروا کر سال چھے مہینے میں ہیروئن سے ملاقات کروائی جا سکتی تھی تو سائیڈ ہیرو کو توبہ کروا کر شمالی کوریا کی قومیت دلوا کر ہیروئن کے ساتھ نئی زندگی شروع کروائی جا سکتی تھی۔ مگر ایسا محسوس ہوا کہ مصنف نے تعصب دکھایا ۔ یعنی شمالی کوریا کے لوگ چاہے وہاں فوج میں ہی کیوں نہ ہوں استعفی دے کر دوسرے ملک جا کر بس سکتے ہیں مگر جنوبی کوریائی نوجوان مر جائے مگر شمالی کوریا میں نہ رہ پائے۔
بھئ دیکھ لو تم سب بھی یہ ڈرامہ کوئی حسرت نہ رہ جائے کہ ہائی رینٹنگ والا ڈرامہ واعظہ کے کہنے پر نہیں دیکھا مجھے کیا جہاں مرضی وقت برباد کرو۔ جب گوبلن دیکھ کر اسے پسند بھئ کر سکتے ہیں لوگ تو یہ تو واقعی کچھ دلچسپ ڈرامہ ہے۔۔
#actress #leejaewook #mbc #suzy