ایلس بوائے ان ونڈرلینڈ
دنیا میں دو طرح کی ڈرانے والی فلمیں بنتی ہیں۔ایک جنکو دیکھ کر ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹیں دوڑتی ہیں دل دہل دہل جاتا ہے دوسری جن کو دیکھ کر ہنسی آتی ہے۔ دوسری قسم کی فلمیں ویسے پاکستان میں بنتی ہیں ۔ بھارت میں پہلے بناکرتی تھیں مگر اب بھارت نے نئی قسم متعارف کرا دی ہے ایسی ہارر فلمیں جنہیں دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہو جائیں۔ مگر چونکہ ہم ایشیائی ممالک ہمیشہ سے تخلیق پسند رہے ہیں تو ایک اور ایشیائی ملک کوریا نے ہارر فلموں میں ایک نئی جہت متعارف کرائی ہے۔ ایسی فلم جسکو دیکھ کر نہ ڈر لگے نا شرم آئے نا ہنسی نا ہی مزا۔ اس فلم کو دیکھ کر کچھ اور ہی قسم کے جزبات کا مدوجزر اٹھتا ہے دل میں۔ جن میں پہلی تو عجیب کیفیت ہوتی ہے۔
فلم کی کہانی ہے ایک عدد لڑکی کی جو خواب میں ڈرتی ہے۔ خواب سے ذیادہ جاگنے کے بعد اپنی خالہ کو ڈراتی دھمکاتی ہے۔ نتیجتا خالہ پہنچ جاتی ہیں ایک عدد عاملہ کے پاس۔ اب یہ عاملہ شازیہ جیسی کالے جادو پیلے جادو کی ماہرہ نہیں سو آدھی ادھوری کہانی ہی کھول پاتی ہے۔ فیصلہ یہ کرتی ہیں دونوں کہ ہیروئن کو تن تنہا جنگل میں سے گزر کر ایک آسیبی کاٹیج میں جا کر رہنے اور 28 مارچ کا انتظار کرنے کو کہتی ہیں۔مزے کی بات ہیروئن چلی بھی جاتی ہے۔ پھر 28 مارچ آجاتی ہے رینگ رینگ کر۔ اچھا ہاں پہلے یہ پالو گڈا بھی تو اسے جنگل میں ملتا ہے جو دل پر چوٹ کھائے بیٹھا ہے۔ اتنا گورا آیا ہے اتنا گورا کہ اگر پاکستان میں ہوتا تو ہم یمی گوتمی کی بجائے اسکی شکل دیکھتے فئیر اینڈ لولی کے اشتہار میں اور کمپنی کو روشنیوں کا سہارا لیکر اسے گورا دکھانا بھی نہ پڑتا۔
کہانی سے بڑے اسباق ملتے۔۔
پہلا سبق۔
یہ فلم نا ہی دیکھو تو اچھا ہے ۔ مگر ٹھیک ہے دوسروں کے تجربوں سے کون سبق لیتا دیکھو سب دیکھو خاص کر وہ سب لڑکیاں ضرور دیکھو جو بی ٹی ایس کے پیچھے مجھ سے لڑتی پھرتی رہی ہو۔ کم از کم تھرل تو ملتی ہے نا مجھ سے لڑ کے ؟ فلم میں یہ بھی نہیں ملنا
عاملہ خاتون کیلئے۔
بھئی گاجریں کھائو ۔بے موسمی کھائو۔ اس سے نظر تیز ہوتی ہے بھوت نظر نہیں آتے۔ موصوفہ کو کچھ نظر نہیں آتا ۔ نہ بھوت نا خالہ۔ نا گٹھری میں کچھ۔ مگر یہ تھیں فلم میں۔ صرف گاجریں کھانے کیلئے شائد۔
خالہ کیلئے۔
بھئی بھانجی سے محبت فطری سہی مگر بھانجی کے کرتوت بھی تو دیکھو ۔ اب اگر ڈر رہی ہے تو ڈرنے۔ دو۔ خوامخواہ اسکی فکر میں ڈر ڈر کر ہلکان ہوتی رہیں۔ پہلے ہی منظر میں اسے چھری سے ہاتھ واتھ چہرہ وہرہ کاٹ پیٹ کر برابر کرنے دیتیں تو کاہے ہم ناظرین کو ایک گھنٹہ 57 منٹ کی سزا ملتی۔ آنٹی آپ سے حساب ہوگا دیکھنا۔
ہیرو کی امی کیلئے۔۔
بھئ خود مر کر دوسروں کو مارنے کی دھمکیاں کہاں کی انسانیت ہے۔ پوری فلم رو پیٹ کر بیٹے کا انتقام لینا چاہ رہی تھیں اور بیٹا ہی کمینہ نکلا۔ اتنی بار تو چھری قاتل کی نہ کھائی۔ جتنی بار اپنے قتل کا بدلہ لینے کے درپے امی جی سے کھائی۔
ہیرو کیلئے۔
بھئی اگر پلنا بڑھنا تھا تو مرنے کی کیا ضرورت تھی۔اوہو اسپائلر دے دیا۔ مگر اس سے بھی بڑا ایک اسپائلر ہے ۔ فلم ۔ ہی پوری ایک عدد بربادی کی داستان ہے۔ ہیرو اتنا اچھا ہے اتنا اچھا کہ بس بہت ہی اچھا لڑکا ہے۔ جیتا تو یقینا دو تین بار قتل ہوتا کیونکہ انکو قاتل سے پیار ہی اتنا ہونا کہ خوشی خوشی قتل کروا لیں گے اپنا۔ اوہو ایک اور اسپائلر۔ اوپر سے قاتل کے پیچھے دو تین مرتبہ اپنا قتل بھی کروا لیں گے اگر کسی کو ہمدردی کا بخار چڑھا تو
ہیروئن کیلئے۔
بھئ اگر قتل کا شوق چڑھے تو بچپن میں کرو۔ بڑے بچا لیں گے۔ شوق کا شوق پورا ۔ آگے سے چونکہ مقتول خود بھی بچہ ہوگا تو اسکی روح نے بہت سے بہت بدلہ یہی لینا کہ یاد رکھو مجھے کہ میں تھا بس۔ باقی کبھی کبھار کا ڈرائونا خواب سمجھو اور قاتل بننے کے مزے لوٹ لو ۔۔ سادہ سی بات
ذاتی رائے: بھئئ اس فلم کو ہارر سمجھ کر دیکھو تو پوری فلم ڈرنے کی وجہ ڈھونڈتے گزرے گی۔ لو اسٹوری سمجھو تو خون جل کر رہ جائے گا کیونکہ ہیرو ہیروئن بہن بھائی نکلیں گے۔مگر کام سارے ہیرو ہیروئن والے ہی کریں گے۔ اس فلم کو دیکھنے کی وجہ صرف ایک ہو سکتی ہیرو۔۔ نا دیکھنے کی وجوہات ہی وجوہات ہیں۔سو دیکھ لو اگر دیکھ سکو تو۔ تاہم میری دعا ہے جو جو مجھ سے جلتا ہے وہ فلم دیکھے پوری دیکھے دو تین مرتبہ دیکھے۔ یہی میرا بدلہ لے گی۔