ارتغرل کی پہلی قسط دیکھی۔
(بہت سنجیدہ تبصرہ ہے)
ڈرامے کی پیشکش کردار منظر کشی اور آخر میں پی ٹی وی کی ڈبنگ۔۔
کوئی کمی نہیں ۔ان تمام چیزوں میں یہ ڈرامہ کسی طرح بھی کسی دوسرے ملک کے مواد سے مار نہیں کھاتا۔ ڈرامے کو دیکھتے ہوئے آپکو لگتا ہے آپ واقعی ہی ماضی میں جی رہے ہیں۔ پہلی قسط میں تلوار بناتے ہوئے خوبصورت ترین جملہ سننے کو ملا جو میں پہلے بھی صفحے پر لگا چکی ہوں
ذوالفقار سے بہتر کوئی تیغ نہیں اور علی ع سے ذیادہ بہادر کوئی زمین پر نہیں۔ چونکہ آج 19 رمضان ہے سو اس جملے کی خصوصیت بڑھ گئ۔ بے شک ہمیں ہم سے اگلی نسل کو یہ سب ڈراموں کے ذریعے بتا اور دکھا یا جا سکتا ہے۔ مسلمان کیا تھے اور کب سے ایک دوسرے سے جھگڑ کر کمزور ہونا شروع ہوئے۔ جب میدان جنگ میں کفار زندگی کیلئے بھاگ جایا کرتے تھے وہاں شہادت کے متمنی سینہ سپر ہو کر آخری سانس تک لڑا کرتے تھے۔جہاں سمتوں کا تعین ، جغرافیہ کی معلومات رکھنا انکا خاصہ تھی وہیں طب کی مہارت انکو جدا گانہ مقام عطا کرتی تھی۔ ایک خاتون کی حفاظت کیلئے ارتغرل نے اگلے لمحے کا توقف کیئے بنا صلیبیوں پر وار کر دیا۔ یہ سوچنا کہ اس سے طبل جنگ بج سکتا ہے اس لڑکی کی عزت سے بڑھ کر نہیں تھایہ تھا مقام خواتین کا اسلام میں۔ ۔ ان پر آنچ نہ آنے پائے ۔۔ ان پر جنگ لڑنا فرض نہیں کیا گیا۔ جنگ میں بھی کفار تک کی خواتین بچوں بوڑھوں کی زندگی و عافیت کی ضمانت دی گئ۔ ۔ وہیں مسلمانوں میں ہی ایک کردار ایسا بھی تھا جو اپنی کنیز سے اپنے ناپسندیدہ شخص کو یہ کہہ کر قتل کرواتا ہے کہ اسکے بعد اسے آزاد کردے گا۔ مگر جب وہ اس آدمی کی جان لے لیتی ہے تو وعدہ توڑتے ہوئے اسکی جان لے لیتا ہے۔
اس ڈرامے کی کہانی پہلی قسط میں بس اتنی ہی ہے کہ حلیمہ نامی لڑکی جو یقینا کسی قبیلے کے سردار کی بیٹی ہےاسے قیدی بنا کر صلیبی لے جارہے تھے جہاں اسکی عزت پر ہاتھ ڈالنے کے جرم میں ارتغرل جو جنگل میں شکار کی غرض سے گیا تھا شکار بھول بھال ان تمام صلیبیوں سے لڑائی مول لیتا ہے اور انکو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے
اس ڈرامے سے سب سے پہلا سبق تو ہماری ڈرامہ انڈسٹری کو لینا چاپیئے کہ ہم جنہوں نے ایک ہزار سال حکومت کی ہندوستان پر ہمارے روایات تہزیب کی گہری چھاپ اس خطے میں نظر آتی ہے جہاں یہاں کے فرسودہ رسم و رواج جیسے ستی جیسی رسم مسلمان حکمرانوں نے ختم کی وہاں برصغیر میں عظیم الشان مساجد عمارات محل قلعے بنائے۔ ماضی میں بہت کم پیسے لگا کر بھی ٹیپو سلطان محمد بن قاسم و دیگر حکمرانوں پر پی ٹی وی نے ڈرامے بنائے اب جب کے ہمارے پاس ہر طرح کی جدید ٹیکنالوجی ہے ہم کیوں نہیں اپنے ماضی پر تاریخی ڈرامہ بناتے؟ کب تک ہم کینہ پرور ساس ، بد کردار شوہر ، اور بدزبان مگر با وفا بیوی جو پٹ پٹ کر بھی طلاق نہیں لیتی ایسے واہیات موضوعات پر ڈرامے بنائیں گے؟ پی ٹی وی کے سنہری دور کے بہت سے لکھاری ابھی زندہ ہیں ان سے کام لیں وہ جیسا کام کرنا چاہتے ان سے وہ کام کروائیں۔ ایک خلیل الرحمن پکڑ رکھا اس سے بے وفا عورتوں کی کہانیاں لکھوا کر مزید بیمار زہن پیدا کرتے جا رہے ہیں۔ خدارا پاکستان پر رحم کریں ہماری عوام پر رحم کریں۔ جب بھی کوئی کورین تاریخی ڈرامہ دیکھتی ہوں مجھے شدت سے احساس ہوتا ہے ہم لوگ ان سب سے ذیادہ تہزیب یافتہ اور علم و ہنر رکھنے والے لوگ تھے۔ریاضی کے ماہرین سے لیکر جغرافیہ فلکیات کیا کچھ ہمارا خاصہ نہ تھا مگر اگر اب کسی نئے نویں دسویں کے بچے سے پوچھو تو جابر بن الحیان کو منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی لہجے میں اس کے اصل نام سے بالکل مختلف نام لیکر پکارے گا۔ہاں شائد اسے
یہ پتہ ہو کہ وہ مسلمان سائنسدان تھے۔۔۔ شائد۔۔