Daily dose of sunshine
یہ تو مجھے دیکھنا تھا پارک بوینگ کی وجہ سے مگر حیرت انگیز طور پر یہ ڈرامہ اتنا بہترین نکلا ہے کہ میں ہر قسط میں خود کو اس ڈرامے کا حصہ سمجھتی ہوں۔ ایک ایک جزبہ جو انسان محسوس کرتا ہے اتنا خوبصورتی سے بیان کیا ہے اوپر سے پارک بو ینگ اور وہ ہیرو نام مجھے نہیں آتا جو چھوٹا والا یے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا اسے سائیڈ ہیرو کا کردار کیوں ملتا بہت پیارا ہے اور اتنا ہی اچھا اداکار۔ پارک بو ینگ کا اتنا برا بالوں کا انداز بنایا ہے مگر جانے یہ لڑکی کیا کھاتی ہے اس میں بھی پیاری لگ رہی ہے۔ کہانی ہے ایک نفسیاتی امراض کے اسپتال کی جس میں پارک بو ینگ نرس ہے۔ رحم دل نرس اسکےساتھ ساتھئ ڈاکٹر ہیں ایک بچپن کا دوست ہے اور ہر قسط میں ایک نیا نفسیاتی مسلئہ اٹھاتے ہیں اتنا خوبصورتی سے نفسیاتی مسلئہ بیان کرتے ہیں اور اسکا حل بتاتے ہیں کہ انسان کو بوریت کا احساس بھی نہیں ہوتا اور میں نے بنا تبصرے آدھا ڈرامہ دیکھ ڈالا۔ اس ڈرامے کا مزاق اڑانے کا دل ہی نہیں کیا۔
سچی اس سے پہلے مجھے 18 اگین اتنا پسند آیا تھا کہ میں نے اسکا ایک ایک منظر دلچسپی سے دیکھا کہانی میں کھو گئ اور اب یہ۔ یہ ڈرامہ میرا پسندیدہ ترین بنا ہوا ہے اسکو خالی ذہن کرکے دیکھنا آدھے نفسیاتی تو ارد گرد نظر آجائیں گے۔
ہاں ایک چیز یہ جو ڈاکٹر صاحب کو انگلیاں چٹخانے کی عادت تھی نااف ایسی ہی ایک عادت مجھے تھی۔( ہے) مزاق مت اڑانا پلیز میں انگلیاں نہیں چٹخاتی مگر میں کبھی اپنے انگوٹھے کو کسی ایک انگلی سے چھو لوں تو باقی انگلیاں بھی ضرور چھوتی ہوں ایسا لگتا جیسے باقی انگلیاں اگنور ہو جاتی ہیں اور نہ کیا ایسا تو پتہ نہیں کیا بس میں پھر کر لیتی اب یہ ہر حرکت میں ہونے لگا اتنا کہ دو ایک بار گھر میں ہی ٹوکی گئ۔ میں نے یہ ڈرامہ اب دیکھا مگر اسکا حل خود ہی ڈھونڈا تھا کہ ہاتھ مصروف کرلیتی کوئی کام کرنے لگتی وغیرہ اب یہ عادت نا ہونے کے برابر ہے مگر جب یہ تھی تب میں ذہنی پریشانی میں مبتلا تھی یقینا میرا ذہن اس وقت مجھ سے کھیل گیا۔ سو کہنے کا مقصد مجھے کے ڈرامہ کی یہی بات پسند ہے ان سے بہت کچھ
سیکھنے کو ملتا ہےاو ریہ ڈرامہ بہت کچھ سکھا دے گا۔
ایک او رچیز جو میں نے نوٹ کی وہ ہیڈ نرس کی زندگی پاکستانی معاشرے کی 90 فیصد مائوں کی زندگی ہے۔ ساری توجہ گھر بچوں اور ان سے جڑے معاملات خود اپنی ذات فراموش خود کیا چیز کھانے میں پسند نہیں پتہ کیا چیز خوش کرتی ہے نہیں پتہ ۔
اس دن میں نے بہت دلار سے اپنی ماں سے پوچھا مما کیا چیز آپکو چاہیئے کیا کھانا پسند میں اپنے ہاتھوں سے
بنا کر آپکو کھلائوں گی انہوں نے بہت سوچا پھر بولیں۔۔۔
کچھ نہیں۔۔۔ کسی چیز کا دل ہی نہیں کرتا اب۔