Desi Kimchi |desi kdrama fans|

Eighteen again Chinese movie urdu review

ایٹین اگین۔
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ ایک تو کے ڈرامے بھی کیسی کیسی انوکھی خواہشیں دل میں جگاتے ہیں۔ دوبارہ اٹھارہ کا ہونا کون نہ چاہے گا۔۔ یقینا سب یہی چاہیں گے کہ وہ اٹھارہ سال کے ہو جائیں پھر اٹھارہ سال کے ہی رہیں عمر بھر۔ مگر وائے ری قسمت نہ پیدا ہوئے کے ورلڈ میں۔ اور عمر مہنگائی کی طرح دن بہ دن بڑھتی چلی جارہی ہے۔
خیر کہانی ہے ایک خبطی چڑچڑے گدھے کیطرح کام کرنے اور کتے کی طرح زلیل ہونے والے شخص کی۔جس کے حصےمیں پہلی قسط کے پینتالیس منٹ میں دنیا کی ہر طرح کی ضلالت آچکی تھی۔ موصوف کی نوکری جا چکی تھی اکلوتی بیوی نے طلاق مانگ لی بیٹی بیٹا ناہنجار اور باپ سے سخت نالاں اکلوتا دوست وہ بھی بس ویڈیو گیمز کا شوقین جھلایا روتا پیٹتا گیا جمنازیم میں اکیلے باسکٹ بال کھیلتا رہا کھیلتے کھیلتے رویا بلکا۔ طعنے تشنے دیئے کہ دنیا نے یوں دھتکارا یوں دھویاوغیرہ لو جی ہو گیا انکے ساتھ انوکھا کام۔ 38 سال کےتوندل انکل نما مرد سے بن بیٹھے حسین دلکش نوجوان وہ بھی اٹھارہ برس کے۔ اب انکی جگہ کوئی بھئ دنیا کا دوسرا انسان ہوتا تو کیا کرتا؟ بغلیں بجاتا ناچتا گاتا پھرتا لڑکیاں پٹاتا مگر اس ناشکرے نے رونا پیٹنا مچا دیا۔ اب بیوی بچے سمجھ رہے کہ موصوف دریا پار گائوں گئے ہوئے مگر یہ ہیں کہ جن کے ہاتھوں دھتکارے گئے انکے نظر کرم کے پیچھے وہیں گول گول چکر کاٹ رہے ہیں انکے ہی گرد۔ بس یوں ہی چکر کاٹتے کاٹتے بس پورا ڈرامہ گزر جائے گا۔مگر نہیں پورے ڈرامے آپکو شدت سے احساس ہوگا انسان بوڑھا اندر سے ہوتا ہے باہر سے نہیں۔ نہیں یقین میری بات پر تو دیکھ لو ڈرامہ
کہانئ سے اسباق بہت ملتے مگر لے گا کوئی نہیں۔
سائیڈ ہیروئن کیلیئے۔۔
بھئی اگرآدھی عمر تک بنا لڑکا پٹائے بنا شادی کیئے گزر گئ ہے تو یقین جانو آگے بھی لنڈورے پھرنا مقدر میں ہے۔موصوفہ کو کرش ہوا تھا جوانی میں ہیرو سے اسکے بعد ہیرو پٹ گیا انکی اپنی عزیز دوست سے تب سے بس زندگی میں کوئی وجیہہ انسان آیا ہی نہیں۔ اپنی توقعات کم کرکے کسی کم پر اکتفا کرنا چاہا تو وہ انکل انکی گاڑی گندی کرکے بھاگ گئے۔ مطلب اخیر منحوس لڑکی نما عورت ہے یہ جس سے مجھے دل سے ہمدردی ہے۔۔ یہ موصوفہ پارٹ ٹائم شادی شدہ سہیلی کے دکھڑے سنتی ہیں اور دوبارہ نوجوان ہو چکنے والے ہیرو پر مرتی ہیں۔یعنی بے چاری کی قسمت میں خواریاں ہی لکھی ہیں۔ اس پر میں نے نیا محاورہ بنایا۔
Once a manhoos , always a manhoos.
اسکو اردو میں بھی لکھ سکتی تھی مگر جملہ مزے کا نہیں بنا۔۔
سائڈ ہیرو کیلئے۔
بھئ یہ بھی اس ہیروئن کی طرح قسمت میں خواری لکھوا کر آئے تھے۔ سائیڈ ہیروئن کے پکے دوست ہیں مگر ایک بس اسکےسوا ہر آتی جاتی لڑکی کو لائن مارتے آئے۔ پسند آئی ایک استانی۔ہر طرح سے انہی کی طرح کی کھسکی ہوئی اول جلول خاتون۔۔۔۔
انکے لیئے سبق نہیں اسباق ہیں۔
پہلا : بھئی اپنے جیسی لڑکی ڈھونڈنے نکلو گے تو اگلی کا ملنا مزید مشکل ہوجائے گا کیونکہ وہ بھی تو آپ جیسی ہوگی نا
دوسرا: اگر بہترین دوست شادی شدہ جوان بچوں والا ہو جائے اور آپ کی ابھی تک شادی بھی نہ ہوئی تو پہلی فرصت میں کنارہ کش ہو جائو اس سے۔۔
وہ اپنی بیوی بچوں کے قصے سنا کر عاجز کرے گا
اپنی ازدواجی جھگڑوں کے لمبے فضیحتوں میں شریک کرےگا خود تو طلاق بھی دینے کو تیار نہ ہوگا آپکو شادی سے نفرت ہو جائے گئ
تیسرا: اگر کوئی دوست جوان ہو کر واپس آجائے تو سب سے پہلے اس پہچان کر ہی نہ دو چاہے پٹ کر مر جائے۔ ایسا دوست آپکی دولت دوستی کا بے محابہ استعمال کرتے ہوئے اپنے ہر نئے ایڈونچرکا زبردستی حصہ بنادے گا۔۔ کچھ نہیں کچھ نہیں اپنے ہی ہم عمر دوست کا لے پالک باپ بننا پڑ جائے گا اوپر سے باپ والے رعب میں بھی نہیں آیا کرے گا ففٹا نا شکرا۔۔
چوتھا: جب پیسہ ہے پاس تو باقی چیزیں ہوتی ہیں بکواس۔ اس سنہرے اصول کو گرہ سے باندھ کر رکھنا چاہیئے۔یہ بھیا پیسے کے سوا ہر چیز کے ہاتھوں ذلت خواری جب اٹھاتے ہیں تو میرے جیسے کنگلوں کا دل کرتا ہے ان بھیا سے پیسےچھین لیں سارے۔انکی اوقات ہی نہیں کہ۔۔۔۔۔۔
بیٹی بیٹا کیلیئے
ایک تو جانے کے ڈراموں میں اتنے خیال رکھنے بچوں کی بدتمیزیاں جھیلنے والے بات بے بات محبت کا اظہار کرنے والے والدین کہاں سے آتے ہیں۔اور ایسے والدین کو ہی ناخلف ناہنجار اولاد کیوں ملتی ۔ ابا ہیں کہ پیسے لٹا رہے جان چھڑک رہے بچے ہیں کہ مزاج ہی نہیں مل رہے۔
ایسے بچوں کو ملنے چاہیئیں دیسی والدین ڈنڈے مار کر سیدھا کرکے رکھیں۔
ویسے کورین بچی ہونا آسان بات نہیں۔ سوچیں آپ نوجوان کورین یوجا ہوں ایک حسین وجیہہ بندہ آپکے ارد گرد گھومے پھرے کھانا لا کردے گھر تک پہنچائے کوئی گلی محلے میں غںڈہ چھیڑے اسکی پٹائی لگائے بارش میں چھتری پہنچائے جوتے کے تسمے باندھے مگر آپکو اس پر مرمٹنا منع ہو کیونکہ وہ دلکش حسین انسان آپکا دوبارہ جوان ہوجانے والا ابا ہو ذیادتی ہے کہ نہیں؟
یہی کچھ ابا نے بیٹے کے ساتھ بھئ کیا بہترین دوست بن گئے واحد مگر چونکہ بعد میں ابا واپس بننا تھا تو یہ دور گزر گیا۔
نتیجہ : والدین کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔۔
سائیڈ ہیروز
بھئ تم لوگ فالتو میں بے وقوف بنو سب کام ابا نے کرنے جو جو تم دونوں کو کرنے تھے۔ ایسے ہڈ حرام کام چور نکھٹو سائیڈ ہیروز نہ دیکھے۔ سب کام ہیروئن کے ابا کر رہے یہ بس چپکے چپکے تاڑنے سے کام چلا رہے۔ اس میں سے بھی ایک کوسائیڈ ہیروئن مل گئ۔ مطلب میرے پالو اوپا جو نہایت متاثر کن شخصیت کے مالک ہیں ٹرو بیوٹئ کی طرح بلکہ اس ڈرامے کی طرح ٹرو بیوٹی میں بھی لنڈورے رہ گئے تھے۔۔
ہیروئن کا سائیڈ ہیرو۔
اتنے پیارے ہو اپنی ہم عمر ڈھونڈو نا۔ یہ جو آنٹیاں ہوتی ہیں نا انکی اوپر کی منزل خالی ہوتی۔ اچھا بھلا بک بکی چڑچڑا نفسیاتی شوہرملا قسمت سے جان چھٹ رہی ہے ایک نوجوان پیارا لڑکا مر مٹا ہے مگر انہوں نے وفا کی دیوی بننا اور اسی کے پاس جانا۔ او بھائی اگر اس خاتون میں عقل ہوتی تو وہ ایسے بندے کے ساتھ شادی کرتیں؟ ناحق یہ اوپا احمق بنا ان آنٹی پر مر مٹ کے۔ اسکو صرف ایک ہی سبق ملا۔
دور کی آنٹیاں سہانی۔۔ یہ ویسے ڈرامے میں نہ ہوتا تو ہیروئن آنٹئ اچھی کیسے ثابت ہوتیں؟ ۔۔
ہیروئن آنٹی کیلئے۔۔
یہ بھئ خوب رہی۔ ہیروئن صاحبہ کو نوجوانی میں وجیہہ دلکش اوپا ملا اس سے شادی بھی ہوگئ بڈھا ہوگیا تو پھر جوان ہو کے آگیا اوپر سے ایک نوجوان بھی مر مٹا۔ مطلب پانچوں گھی میں سر کڑاہی میں۔۔۔ ایسی خواتین ہوتی ہیں جو نہایت خوش قسمت اور احمق ہوتی ہیں۔ مگر یار یہ اتنی پیاری آنٹی تھیں سلیقہ شعار ایسا شوہر جھیل کر بھی ٹھنڈی میٹھئ سمجھدار سی۔ مجھے کے ہیروئنوں میں انکا کردار ذاتی طور پر پسند آیا۔ یہ مضبوط شخصیت کی خوبصورت خاتون جن پر اگر ان سے تھوڑا کم عمر لڑکا مرمٹا تو یقینا یہ اسی قابل تھیں۔مگر یہاں مجھے کورین اور پاکستانی معاشرے میں ایک مماثلت نظر آئی۔۔ کوریا اور پاکستان دونوں میں ایک حسین سلیقہ شعار سمجھدار اور خیال رکھنے والی خاتون کی شادی ہمیشہ کسی خبیث بدمزاج چڑچڑے سے ہوتی ہے۔
ہیرو کیلئے۔۔
ہیرو کو اس پورے ڈرامے میں صرف ایک ہی سبق ملتا۔
بدلو ۔ خود کو بدلو۔ سب اچھائیاں اسکی شخصیت کی اسکے مزاج اور تیوروں کی وجہ سے کہیں چھپ چھپ گئ تھیں۔پورےڈرامے میں اسکی ڈھونڈ ڈھونڈ کر خوبیاں نکالتے رائٹرز کو دانتوں تلے پسینہ آیا ہوگا۔پھر بھی کھینچ کھانچ کر اسے اچھا بنایا۔ اور چونکہ یہ ڈرامہ تھا تو ہیرو اچھا بن بھی گیا۔ ذرا پاکستانی مردوں کو یہ ڈرامہ دیکھا کر دیکھو رتی برابر بھی نہ بدلیں گے خود کو۔
ذاتی رائے: پچھلے سال ایک میں یہی ڈرامہ سب سے اچھا لگا۔ہلکا پھلکا مزاحیہ گھریلو۔ لی دوہیون نے اداکاری میں وہ کمال دکھایا۔ نوجوان ہو کر بھی باقائدہ ادھیڑ عمرکے لوگوں کی طرح چلنا اٹھنا بیٹھنا بولنا تعریف کے قابل ہے۔ بہت اچھا اداکارہے بھئ۔ اوپر سے ہیروئن کے ساتھ جو مناظر تھے انکے درمیان جو تعلق سا محسوس وہ ذرا بھی اوپرا نہ لگا۔ ہیروئن تو خیر ہے ہی منجھئ ہوئی اداکارہ مگر دونوں نے اپنی اپنی جگہ ڈوب کے اداکاری کی ہے۔مزا آیا۔ ۔سب سے ذیادہ ہیرو کا وہ فیصلہ جب وہ اپنی حالیہ زندگی اور جوانی میں سے ایک کو چنتا ہے۔۔ مطلب کچھ لوگ ہوتے ہیں دوبارہ بھی موقع ملے نا تو اتنی ہی بونگیاں ماریں گے زندگی میں جتنی مارتے آئے ہیں۔
یہ ڈرامہ سب لڑاکے جوڑوں کو دکھائو ان بچوں کو دکھائو جو ہروقت اپنے والدین سے بدتمیزیاں کرتے تم سب بھی دیکھو تاکہ نا ایسے بچے بنو نا ایسے والدین۔

Exit mobile version