Desi Kimchi |desi kdrama fans|

Exploring the Tale of “Abdullah Pur Ka Devdas: A Pakistani Drama Review

عبداللہ پور کا دیوداس

ایک تو دیوداس نام ہی کیوں ہے جبکہ کہانی اور ڈرامہ پاکستانی ہے ۔ دیوداس نام کا کوئی کردار تھا بھی یہ بالی ووڈ فلم دیوداس سے قبل پاکستانی جانتے بھی نہیں تھے مگر ہیرو فخری فخر سے اپنا نام عبداللہ پور کا دیوداس کہلواتا ہے جیسے دیوداس نہ ہوا ٹیپو سلطان ہوگیا۔ ٹیپو ہی نام رکھ لیتے کچھ عزت رہ جاتی مگر جانے ان پاکستانیوں کے ساتھ مسلئہ کیا ہے کیوں ذہنی غلام ہیں۔اپنے ایمان سے بتائیں کسی کو آج تک اپنے گرد فخر سے اپنے آپ کو دیوداس تو چھوڑو مجنو یا رانجھا کہتے بھی سنا؟ چلو کہلوائو تو کم ازکم اپنے ہی کسی تاریخی ہیرو کا نام لے لودیوداس کی نسل یہاں کہاں سے آگئ؟

یہ ڈرامہ ذی زندگی کیلئے بنا ہے اور اسکو دیکھنے کی وجہ اسکی ہائی پروڈکشن کوالٹی ہے۔ جی پرومو دیکھا سوچا کچھ تو نیا ہوگا سو دیکھنے بیٹھ گئ۔ زی زندگی پاکستان میں نہیں دیکھا جا سکتا تاہم پاکستانیوں کے اصرار پر ہر جمعہ ہفتے اسکی اقساط زی زندگی کے یو ٹیوب چینل پر نشر کی جائے گی دو اقساط آچکی ہیں مگر یو ٹیوب پر ایک ہی آئی ہے اور جسے دیکھ کر دوسری کے موجود نہ ہونے کا غم جاتا رہا۔

اس ڈرامے کی کہانی ہے فخری نامی لڑکے کی جو عبداللہ پور نامی گائوں میں رہتا ہے فخری کا کردار بلال عباس ادا کررہے ہیں ۔ فخری کرکٹر ہے خالہ کے گھر رہتا یے خالہ کا بیٹا جگری یار ہے۔دونوں نے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا امتحان دیا مگر فخری رہ گیا دوست کا داخلہ ہوگیا ہے۔ یہ بعد میں کوشش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ابھی اس دوست کے پیچھے پنگا لیا ہے علاقے کے جاگیردار سے جو الیکشن بھی لڑنے والا ہے اور بااثر شخصیت ہے۔ دوسری جانب لڑکی ہے شہری یونیورسٹی میں پڑھتی ہے۔ اسکا ایک عد دکزن اس پر مرتا ہے مگر اسکی والدہ مرنے سے پہلے اپنی بہن کے بیٹے سے منگنی کرکے مری ہیں۔بہن کا بیٹا یہی جاگیردار ہے۔ ہیروئن خوش نہیں ہے مگر اپنے مرنے والے کزن پر مرنے سے بہتر سمجھتی ہے کہ اپنی مری ہوئی ماں کی خواہش پر مر مٹے۔ یہ گائوں آتی ہے فخری کرکٹ کھیل رہا ہوتا ہے مگر ایسی بائونک آنکھیں ہیں فخری کی کہ پچ پر کھڑا ہو کر گرائونڈ کے باہر گیٹ پر کھڑی لڑکی دیکھ کر سکتے میں آجاتا ہے ہار جاتا ہے میچ اور دل بھی۔ جی اتنا ہی احمقانہ لکھا ہوا ہے یہ۔

میں نے پروڈکشن کوالٹی کی وجہ سے دیکھا کیسے؟ یہ آپکو ڈرامہ دیکھتے نظر آئے گا نت نئے زاویوں سے قید ہوتے مناظر خالص پاکستانی گلیوں کا ماحول  تیسری منزل سے سڑک پر بھاگتے لڑکوں کے مناظر اور خوش رنگ ماحول اچھا لگا دیکھنے میں جب آدھے سے ذیادہ پاکستانی ڈرامے چار گھروں کے بس دو کمروں میں شوٹ ہوتے ہیں قدرتی ماحول دیکھنے میں اچھا لگا۔ کاسٹ بہت بڑی ہے۔ بلال عباس، رضا تالش، ضحاب خان ، فضل حسین ، علی انصاری اور جو جاگیر دار بنا ہوا وہ لڑکا بھی پرانا ہے نام نہیں یاد اسکا اور سارا خان ہیروئن مگر کہانی روائتی بلکہ بکواس کہوں تو بہتر ہے۔ گائوں کے لونڈے کو شہری امیر زادی پسند آگئ ہے اور وہ پہلے سے منگنی شدہ  اس سے زیادہ گھسی پٹی اور کہانی کیا ہوگی۔ پھر ضحاب خان اور فضل حسین سچ مچ کے چوبیس پچیس سال کے جوان ہیں اگر یہ یونیورسٹی جانے والے دکھائے جاتے کچھ نئے چہرے دکھائے جاتے تو پھر کچھ مزا آتا لیکن یہ دونوں معاون کردار ہیں۔ بلال عباس رضا تالش وجیہہ جوان سہی مگر یونیورسٹی جانے والے بالکل نہیں لگ رہے اور انکے دوست کے طور پر یہ دونوں لڑکے کہیں چھوٹے لگ رہے۔ پھر ساراخان ہیروئن ۔ یار بس چار چہرے دکھا دکھا کر ہمیں بور کردیا ہے۔ سارا نے شائد کوئی سرجری کرائی ہے ایک تاثر ثبت ہے بس چہرے پر چاہے ہنسے یا روئے ذرا اچھی اداکاری نہیں کررہی۔ پھر بالوں کا وہی انداز سیدھے سپاٹ چہرے پر سیدھے سپاٹ بال۔ محترمہ کوشش بھی نہیں کر رہی ہیں اپنے کردار کو جاذب نظر بنانے کی۔ دوسری طرف سائیڈ ہیروئن منجھی اداکارہ ہے کھا پی گئ وہ سارا خان کو اداکاری میں ۔ ہر ہر  تاثر چہرے کا قدرتی لگ رہا اسی کو ہیروئن لے لیتے۔ بلال عباس خوبصورت لڑکا ہے اداکار تو بہت ہی اچھا ہے اسکے مقابلے پر کوئی اچھے تاثرات دینے والی ہیروئن لیتے اور اسکرپٹ کچھ دلچسپ اٹھاتے تو مکمل یہ بین الاقوامی معیار کا ڈرامہ بنتا۔ پورے ڈرامے میں رضا تالش اور بلال عباس ہی دیکھنے کے قابل ہیں باقی بکواس کہانی بیزار کن پلاٹ اور علی انصاری کی اوور ایکٹنگ ہےاور سارا خان کی ایکٹنگ ہے ہی نہیں۔ ایکدم ڈبہ

سب نمبر بلال عباس کے۔

urdu web travel novel featuring seoul korea desi kimchi
Exit mobile version