ہائی سوسائیٹی میں نے تین سال قبل جب ہیونگ سکنس کا نیا نیا شکار ہوئی تب دیکھا تھا۔ اخیر کوئی پیارا آیا ہے
۔ مگر ڈرامہ لگاکر احساس ہوا کہ چندی شکلوں میں زندگی گلزار ہے پارٹ ٹو لگا لیا۔ کیا ڈرامہ ہے نا کوئی مافوق الفطرت شے نا ہی کوئی غیر مرئی قوت۔ سیدھا سادا گھریلو کمینی سازشوں والا ڈرامہ جس میں نا ہیرو کو ہیروئن کے سوا کوئی پسند آنا ہے نا ہی سائیڈ ہیرو کو سائیڈ ہیروئن کے علاوہ کسی پر بری نگاہ ڈالنا ہے شرافت سے تم اپنی والی کے ساتھ میں اپنی والی کے ساتھ صلح نامے کے ساتھ انجام ۔ کیا اخیر عام و فضول کہانی مگر چار کیا ایک سو چار چاند لگ جاتے ہیں بس اس میں ایک ہیونگ سک کی موجودگی سے۔
کہانی ہے جناب ایک امیر زادی کی جسے غریب زادی دکھائی دینے کا مراق ہے اور اسکی سہیلی بنتی ہے ایک غریب زادی سے جسے امیر زادی بننا ہے غرض دونوں ایک دوسرےکو انکی پسند کے ڈھونڈ دیتی ہیں۔غریب ذادی کو امیر زادہ اور امیر زادی کو غریب زادہ مل جاتا ہے اور امیر زادی غریب زادے اور غریب زادی امیر زادے کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔کہانی ختم
کہانی سے بڑے بڑے سبق ملتے ہیں۔
سائیڈ ہیرو کی امی کیلئے۔
بھئ آپ ٹھہریں کورین بونگی آنٹی۔ دھمکیاں تک دینی آتی نہیں چلی ہیں بیٹے کا بریک اپ کروانے۔ ایسے ہندوستانی مائوں کے بچپن کے شوق پالنے تھے تو ہندوستانی ڈرامے ہی دو چار دیکھ لیتیں کیسے تھپکی کی شادی اپنے سگے بیٹے کے سر پر ڈنڈا پڑوا کر سوتیلے بیٹے سے کروائی تھی۔ شادی سے پہلے تڑوانے پہنچ گئیں منہ کی کھائی نا۔ مجھے تو لگتا ہے سائیڈ ہیروئن نے دو چار سوپ انڈین دیکھ ہی لیئے تھے۔ اتنے ہی سازشیں کرنے اپنی اہمیت جتانا سیکھنے اور ہیرو کو کاٹھ کا الو بنانے کے دائو پیچ سیکھنے کیلئے کافی ہیں۔۔ میرا مشورہ ہے ان آنٹی کیلئے کہ شادی کرنے سے روک نہ سکیں گی سو اب شادی کے بعد بہو کو تگنی کا ناچ نچانے اور الزام لگا کر گھر سے نکلوانے کا طریقہ سیکھنے کیلئے ہم سفر دیکھ ڈالیں۔
سائڈ ہیرو یعنی ہیونگ سک کیلئے۔
سنا تھا کہ برگر بچے احمق ہوتے ہیں یہاں دیکھ بھی لیا۔ اچھی خاصی نتھنے پھلا کر حدیقہ کیانی سے بھی زیادہ بڑا منہ کھول کر بات کرنے والی عجیب بونگی سی لڑکی جس نے سوائے کرشمہ کپور کی طرح چھچھوری اداکاری کرنے کے کچھ نہ کیا تمہیں نظر کیا آیا؟۔ پورا ڈرامہ اس لڑکی کی عزت نفس خود داری اور جانے کون سی خصوصیات کی بھر بھر تعریفیں کرتے رہے کہ کئی بار مجھے لگا کہ شائد سب ٹائٹل میں کوئی مسلئہ ہے۔ مگر نہیں یہ تو کورین زندگی گلزار ہے چل رہا تھا۔ ہیروئن کو زبردستی فرشتہ صفت کشف ثابت کیا تو عام سے ہلکے پھلکے فلرٹی کو کمینہ دل پھینک زارون بنا کے دم لیا۔ ویسے کہانی ہرگز بھی زندگی گلزار جیسی نہیں تھی ورنہ یہی سمجھنا تھا میں نے کہ 2012 کا زندگی گلزار ہے دیکھ کر 2015
میں کوریا والوں نے ہائی سوسائیٹئ بنا ڈالا۔ اب سوال یہ کہ سائیڈ ہیرو کے لیئے سبق کیا ملا۔ بھئی اپنی ہی کمپنی کے نچلے درجے کی نوکرانیوں سے دور رہو۔ ایک سے ایک خوبصورت لڑکی اپنے حلقہ احباب میں دیکھ لینے کے بعد کوئی پکی شکل کی خرانٹ غریبنی دیکھتے ہی مر مٹو گے کہ یہ تو بالکل نیا مال آیا ہے مارکیٹ میں۔
سائیڈ ہیروئن کیلئے۔ بھئ کشف جیسی محنت مزدوری کتے والی کروا کے پڑھ لکھ کر اونچی افسر بننے والی حماقتیں کرنے کی بجائے کسی وجیہہ و شکیل اونچی سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے کم عمر منتظم اعلی(ایسے کیا دیکھ رہے سی ای او کا ترجمہ کیا ہے)
کی کمپنی میں معمولی درجے کی ملازمہ بنو کیا پتا کسی دن ٹاکرا ہو جائےاس سے۔۔۔۔ پہچانو تو بالکل مت بلکہ ہو سکے تو درگت بنا دو اسکی کوڑاکرکٹ ڈال دو بدتمیزیاں کرو سر ہی پھاڑ دو۔کسی طرح متوجہ تو کرو۔ ایسے برگر بچوں کی نظر دماغ نیت سب خراب ہوتا ہے بس تھوڑی سی لائن مارو زندگی سکھی۔ سب سے بڑھ کر شادی سے خود انکار کرو۔ اس کہانی کی منطق کے مطابق لڑکی شادی سے انکار کرے تو لڑکا سر کے بل دوڑا چلا آتا ہے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر مناتا ہے نہیں تو باتھ روم میں کپڑوں سمیٹ رو رو کے نہاتا ہے۔ آنسوئوں سے نہیں پانی سے ہی اب ہیونگ سک اتنا احمق بھی نہیں۔
ہیرو کیلئے۔
کون محنت کرے سالوں نوکری کرے سال سال بعد محنت کر کرکے انکریمنٹ لے ترقی کا انتظار کرے سیدھا جائو کسی بڑی کمپنی کے مالک لڑکے کو سائیکل ریس میں روز ہرا کر اسکی گرل فرینڈز کے معاملات سلجھا نے بھر کی دوستی کرو تاکہ اسکے لیئے اچھا رشتہ آئے اور اسکی نہ ہو سکنے والی منگیتر تم سے پٹ جائے۔ بے شک اتنے ہی غیر منطقی انداز میں ہیرو کو ہیرو بنایا ہے کہ دل کرتا منطق کویو ں تڑپا تڑپا کے مارنے والے مصنف کو جا کے دو لگاہی دیں۔ایسی بھی کیا منطق سے دشمنی۔ ؟؟؟ کروڑوں کا مالک سائکل ریس لگاتا یے 2015 میں۔
چلو پب جی نہ سہی کوئی لڈو کوئی ایٹ پول ہی کھلوا دیتے اس امیر کبیر بندے سے۔۔
ہیروئن کیلئے۔ بھئ اس سے احمق ترین فارغ ترین عورت زندگی میں نہ دیکھی دیکھ سکتے ہی نہیں۔کیسے دیکھیں گے؟ امیر کبیر والدین کی تیسرے نمبر کی دختر جس کی بہنیں دونوں ہاتھوں سے پیسے لٹارہی ہیں یہ شہزادی عنبر بنی فقیروں کا بھیس دھار کر اپنے نا ہوسکنے والے منگیتر کے بڑے سے اسٹور میں چھوٹی سی معمولی نوکری کرکے خوش ہیں۔ او بی بی اتنا پیسے فالتو لگتے تو مجھے دے دو میرے بہت سے ننھے منے ارمان ادھورے پڑے ۔ایک ہماری ہائی سوسائٹی ہے جہا ں ہزاروں لٹا کے ایک آدھا لان کا سوٹ چھینا جھپٹی کرکے خرید کر امیر عورتیں پیسے برباد کرتی ہیں وہاں کوریا کی یہ امیر زادی انسٹا پر میک اپ ٹیوٹوریل بنانے کی بجائے معمولی ملازمت کر رہی ہے۔ٹک ٹاک تب تھا نہیں ورنہ یہ مثال بھی دے سکتی تھی ۔
خیر اس لڑکی کے ساتھ اسکی حماقتوں کے باعث جو ہوتا کم تھا۔ مگر پھر بھی ہیروئن ٹھہری ہیرو نے ناک رگڑ کر اس پاگل کو منایا حالانکہ اس کمینے کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اس نے فقیر ہی کرچھوڑنا پھر بھی محبت ۔۔۔۔۔
ذاتی رائے:بھئی دیکھوغیر منطقی ڈرامہ ہے دیکھو یہ ڈرامہ بھلے امیر کبیر ہیونگ سک کو چار بائی چار فٹ کے کمرے کا مالک بنا دیکھ کر یا انکے گھر سے بڑا پاکستانی ڈراموں میں سرونٹ کوارٹر دیکھ کر کوریا کو غریب ملک سمجھو مگر ڈرامے میں ہی ہیرو کا غریبانہ فلیٹ ہیونگ سک کے محل سے ذیادہ بڑا قیمتی اور خوبصورت لگے تو اسکو نظر کا دھوکا نہیں بلکہ پروڈکشن والوں کی احمقانہ منطق سمجھ کر نظر انداز کرنا۔ باقی ڈرامے میں جب جب ہیونگ سک کو میٹھی میٹھی نظروں سے ہیروئن کو تکتے دیکھو تو دل نا جلانا بہت ہی اچھا اداکار ہے سامنے دو بونگ سون ہو یا یہ بونگی واقعی لگتا کہ مرمٹا ہے اس پر۔ خوش قسمتی سے یہ ڈرامہ پاکستانی ہندوستانی ڈراموں کی طرح کی کہانی رکھنے کے باوجود اپنی چندی کاسٹ کی بنا پر دیکھنے لائق ہو ہی جاتا یے اگر منطقی نکتہ نظر کو بھاڑ میں جھونک کر دیکھا جائے۔