ہم دونوں
خوبصورت لڑکوں نے مجھے بہت سے فضول ڈرامے پورے دکھوائے مگر وہ کورین لڑکے ہوتے تھے۔پھر آیا ثمر جعفری۔ ( پتہ ہے چھوٹا ہے )
اس لڑکے نے مجھے مائے ری دکھوایا اور اب اسکے صرف اسکے پیچھے میں دیکھنے بیٹھ گئ ہم دونوں۔ اور پورے ڈرامے میں گن کر دو چار مناظر ہیں اسکے🥺 اور میں نے دو دو قسطیں دیکھ ڈالیں۔ اب دیکھ لیں تو تبصرہ بنتا ہے۔
کہانی شروع ہوتی ہے ہڈی جینز میں ملبوس ایک پیاری سی لڑکی (کنزی ہاشمی) سے جو چھپ چھپا کے ایک مڈل کلاس گھر پر پہنچتی ہے۔ گھر کےاندر سے نکلتا ہے اذان سمیع خان ( مایوسی) اور وہ لڑکی کو لیکر چھت پر چلا جاتا ہے۔ پہلی پاکستانی مڈل کلاس چھت دیکھی جس میں دو رویہ گلوب جیسے خوبصورت لیمپ سجے تھے قطار در قطار اور ڈرون شاٹس واہ۔
کہتی ہے لڑکی میں تمہیں بھگانے آئی ہوں چلو بھاگ چلیں۔ اور لڑکا سنجیدہ سمجھدار ہے گولڈ میڈلسٹ ہے۔ منع کرکے منا کر گھر بھیجتا ہے۔ کیوں؟ لڑکی ہے درانی صاحب کی بیٹی جو بہت بڑے صنعت کار ہیں اتنے خوامخواہ کے پیسے والے کہ لڑکے کا باپ انکی کسی فرم میں معمولی کلرک رہ چکا ہے ۔ لڑکی بری طرح مرمٹی ہے اور لڑکا بھی خوددار ہے۔ اب طے ہوتا ہے درانی صاحب سے ملوائے گی لڑکی۔ یہاں درانی صاحب جو کہ نعمان اعجاز ہیں بیٹی کیلئے لڑکا پسند کر چکے ہیں۔لڑکا انکا اصل والا بیٹا ہے زاویار نعمان جو کہ ہم پلہ ہے۔ دوسری قسط میں لڑکا ذلیل کرکے نکالا جا چکا ہے سسرال سے۔ اب نوکری کرنے دبئی جا رہا ہے۔ دبئی جاتے ہوئے اغوا ہوچکا ہے۔
لڑکےکے والد بابر علی ہیں اور چھوٹا بھائی ہے ثمر جعفری جس کے پیچھے یہ ڈرامہ لگایا۔
کہانی ماشا اللہ سے بالکل بکواس ہے۔ اور جتنی بکواس کہانی ہے اس سے بھی ذیادہ بکواس اذان سمیع خان کی اداکاری ہے۔ اسکو لیڈ رول دیا ہی کیوں جا رہا ہے۔ کنزی ہاشمی نے آنکھوں میں جگنو ستارے جگمگا کر ایسے جزب سے مکالمے بولے ہیں اخیر حسین آئی ہے کہ اس پر سے نظر نہیں ہٹتئ وہاں منہ میں اٹکتے لفظوں کے ساتھ اذان سمیع خان اتنے برے تاثرات دیتا ہے کہ الٹی آجائے۔ کنزی کا کمال ہے اس بندے کے سامنے ہنسی روکے بنا جزب سے مکالمے بولے ہیں۔ ایک مکالمہ جس پر میں جل بھن گئ۔
مکالمہ کچھ ایسا تھا کہ میں اس قابل بنوں گا کہ تمہارے ڈیڈ خود تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھمائیں گے۔
اذان سمیع نے یہ مکالمہ بولا
میں اس قابل بنوں گا کہ تمہارے ڈیڈ خود تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھامیں گے۔
ذرا تصور کرو ابا بیٹی دونوں اذان سمیع کا ہاتھ تھامے کھڑیں ہیں۔
ہدایت کاری لاجواب ہے۔سیدھی سڑک پر ڈرون شاٹس لیئے، گھر میں روشنی ٹھیک ٹھاک وفا( ہیروئن ) کا گھر خوب روشن خوبصورت مگر کہانی کیا ہے؟
دو درجن سے ذیادہ بھارتی فلمیں بن چکی ہیں اس کہانی پر۔
لڑکا خود دار غریب مگر قابل لڑکی امیر ضدی بھولی ۔ لڑکی کا باپ سازشی۔ لڑکا اغوا کروا لیا۔ بیٹی کو غلط فہمی کرادی ۔جو رشتہ خود ڈھونڈ رکھا وہ لڑکا بھی سازشی ہے۔ لڑکی کا دل جیتنا چاہتا یے۔
جتنئ بکواس کہانی اور اچھی ہدایت کاری ہے اتنی ہی اچھی اداکاری۔
ہیروئن کی کزن انکے گھر میں رہتی ہے پہلے منظر سے ہی شک ہوتا ہے یہ بہن نہیں ہوسکتی حالانکہ وہ ہیروئن کے باپ کو ڈیڈ ہی کہتی ہے۔ اسکی جسمانی حرکات اسکے چہرے کے تاثرات دبی دبائئ جھجکی سی لڑکی ایکدم ذہن میں آجاتا یہ لڑکی ہم پلہ نہیں ہیروئن کے۔ دوسری جانب بابر علی ایکدم منجھے ہوئے اپنے کردار میں مکمل ڈوبے انکی بیوی چھوٹا بیٹا ایک ایک منظر میں مکمل خاندان لگ رہے۔
نعمان اعجاز بہترین اداکاری۔واقعی امیر صنعت کار لگ رہے۔ جو بیٹی کو کیسے منانا جانتے۔
کنزی ہاشمی تو اتنی اتنی پیاری آئی ہے اور اتنے اچھے تاثرات دیئے ہیں کہ میں
اسکی تعریف میں لمبے پیرا گراف لکھ سکتی ہوں۔ زبردست۔
ڈرامے میں سب ڈالا ہے۔ سوائے کہانی کے۔ بات بات پر رومانوی مکالمے، لڑکھڑا کر گلے لگ جانا ہاتھ پکڑنا کھینچم تانی بالکل انڈین ڈراموں کی طرح جسکے بغیر بھی ڈرامہ چل جاتا اگر اذان کو اداکاری کا الف بھئ آتا ہوتا۔ الٹا ایسے مناظر میں جتنے برے تاثرات دیئے ہیں جہاں کنزی کی شکل پر نگاہیں ٹھہر رہی ہیں وہیں اس کو دیکھ کر دس دس سیکنڈ آگے کرتی رہی۔
پورے ڈرامے میں اداکاری کے سوا جو چیز پسند آئی وہ تھا ترجمہ گرل فرینڈ کا ترجمہ ۔
جہاں ہیرو کی گرل فرینڈ کا ذکر آیا وہاں ہیرو کے شریف گھر والے بھابی بہو کہتے رہے اور غنڈے سہیلی ۔
یار قسم سے لڑکوں کی سہیلی گرل فرینڈ کا اچھا ترجمہ ہے۔ ہمیں یہی ترجمہ چلانا چاہیئے۔ جیسے کورینز نے دوست یعنی شنگو کے ساتھ نامجا اور یوجا لگا کر گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کا ترجمہ کیا وہاں ہم لڑکی دوست یا لڑکا دوست کی بجائے سہیلی اور دوست کے الفاظ استعمال کر سکتے۔ اب یہ مت کہنا ہم پہلے ہی میرا بندہ میری بندی کہتے۔ مزے کا تھوڑی لگتا بندہ یا بندی کہنا صحیح کہا نا؟۔۔۔۔۔
Desi kimchi ratings:1/5