Desi Kimchi |desi kdrama fans|

Kingdom Kdrama urdu review

کبھی کبھی انسان اپنی پرسکون اور کسی بھی پریشانی سے دور اطمینان کی زندگی سے بھی اکتا جاتا ہے ایسے میں اسکا دل چاہے کہ دل کچھ چاہنا ہی چھوڑ دے قتل و غارت خون دنگے فساد دیکھنے کو ملیں دل پریشان ہو جائے اور اپنی موت کا خوف طاری ہو جائے ایسے میں کیا کیا جائے؟ کورین ڈرامے دیکھے جائیں۔ مگر پیار بھری دیومالائی کرداروں اور ہنستے مسکراتے چہروں کو بھی کتنا کوئی دیکھے تو جناب آپ دیکھیں کنگڈم ۔۔ دو سیزن بارہ اقساط اور کہانی مجال ہے جو آگے بڑھے۔۔ لگ رہا ایسے دو تین سیزن اور بھی آجائیں تو مشہور مثل کی طرح ہم بھی ڈرامے کے بعد پوچھیں گے زلیخا مرد ہے یا عورت۔۔۔ نہیں یہاں زلیخا ہے یا لیلی چلو جو بھی ہے کہاوت تو ہے ایسی بس چلائو کام۔۔
کہانی ہے بادشاہ اور اسکی سلطنت کی جس میں عجیب بیماری پھیلی ہے کہ لوگ خون وگوشت وہ بھی انسانوں کا کھانے لگتے ہیں اور جسکو کاٹتے وہ بھی ان جیسا بن جاتاہے۔ نہ کوئی ہیرو نہ کوئی ہیروئن نہ محبت کی داستان نا کوئی دیومالائی جادوئی کہانی نہ خوبصورت لوگ ہیروئن پورا ڈرامہ نہائی تک نہیں ، ہیرو جھڑوس بن کے پھرتا رہا لڑکے لڑکیوں کی بجائے مرد و عورتیں ہی نظر آئیں بس۔ ایسا ڈرامہ جس میں اصل بادشاہ محض جانور کی طرح ڈکراتا پھرا شہزادہ در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرا سازشی وزیر جانور پال کر زہر خورانی کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا سب کو بیمار کرنے والا صحنتمند ہٹا کٹا پھرتا رہا بچے تو مٹ ہی گئے بے چارے ایسی سلطنت
جس میں مسکراتے چہرے آپکو صرف طنز کرتے ہوئے ہی دکھائی دیں گے کبھی کوئی کردار پرسکون بیٹھا نظر آئے تو سمجھ لیجئے اس کے سر پر کوئی مصیبت پڑنے والی ہے۔کسی کو بھوک سے بلکتا دیکھیں تو سمجھ جائیں یہ کسی کی بھوک مٹانے کا سبب بننے والا ہے۔ اور بچے تو اس میں بچیں گے ہی نہیں جو جو ہائے بائے ماما دیکھ کر روتے پھرے ہیں ذرا یہ دیکھیں دل ایسا چکنا چور ہوگا ان معصوموں کو کٹتے پھٹتے دیکھ کر کہ کلیجہ ہل جائے گا۔
کہانی ہے جناب شہزادے کی۔۔ انہی کی جو سب سے آگے کھڑے فقیر سے لگ رہے ہیں ۔۔۔

انکے ابا مر گئے یعنی اب انکو اصولا بادشاہ سلامت کا رتبہ مل جانا چاہئے مگر نہیں ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ابا مرتے مرتے انکی ہی عمر کی لڑکی سے شادی کرگئے جس کے ابا یعنی انکے سسر شہزادے کو بے دخل کرنے کے منصوبے بناتے ہوئے بادشاہ کے مردہ جسم کو زندہ کرنے کیلئے ایک طبیب سے مخصوص پودے کا عرق انکے جسم میں داخل کرواتے ہیں یوں بوڑھا مردہ بادشاہ زندہ ہوگیا مگر درندے کی صورت کہ وہ اب رات بھر جاگتا دن بھر مرا پڑا رہتا۔ رات کو جاگتا تو ملکہ اپنی کنیزیں غلام و دیگر بادشاہ کے طعام کیلئے فراہم کردیتی ہے ۔ شہزادے کو ابا جان کے کرتوت نہیں پتہ مگر یہ پتہ لگتا ہے کہ وہ مرچکا ہے سو اس بات کی تصدیق کیلئے نکل پڑتا ہے۔ اسی اثنا میں ایک۔طبیب صاحب آتے ہیں بادشاہ کو دیکھنے انکا شاگرد بادشاہ کے ہاتھوں تر نوالہ بن جاتا ہے اور یہ طبیب اسکی لاش کے ہمراہ اپنے آبائی علاقے جاتے ہیں جہاں یہ معصوم دفنایا جانا چاہیئے مگر نہیں وہاں ایک فتنہ پرور اسکو کاٹ کر بیماروں کو اسکا سالن بنا کر کھلا دیتا ۔ یوں وہ سب بھی ذومبی یعنی مردار بلا بن جاتے ہیں اور انسانوں کا خون پینے لگتے ہیں۔ یہاں سے شروع ہوتا ہے فساد خون ریزی اور ہر طرح کی بلائیات۔ایک طبیبہ ایک یہ لڑکابچ جاتے ہیں جس کا کارنامہ نا ہوسکنے والا ۔بادشاہ اسکے ساتھی اور پوری سلطنت بھگتتے ہیں ۔۔۔۔
اسباق:

بھئی ملکہ بننا آسان ہے مگر بادشاہت حاصل کرنا بہت مشکل
اسکیلئے آپکو انسانیت کے درجوں سے گرنا پڑتا ہے۔
مگر بندی کا دماغ ہے کہ کیا آخر تک اسکے دماغ کے گھوڑوں کی ریسیں حیران کرتی رہیں کہ ایک وقت آیا دل کیا اسی کو سلطنت دے دوں جا کر اتنی تو اسٹار پلس کہ ولن خواتین منصوبہ بندیاں نہیں کرتیں جتنی اس فتنی نے کیں۔ حالانکہ اسکو چاہیئے تھا بادشاہ کی۔بجائے شہزادے کو پٹاتی ایسا معصوم سیدھا سادا شہزادہ تھا اتنی فتنہ انگیزیاں کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی راج کرتی راج۔
بادشاہ کیلئے۔۔ بھئ مرنے لگو تو شادی کی بجائے بیٹے کو بادشاہ بنانے کی فکر کرو ورنہ ارد گرد احباب بس ایک اسی کو سلطنت نہ ملنے دیں گے۔۔ جس حساب سے بادشاہ نے اپنی حسین کنیزوں کو کھایا ہے مجھے حیرت ہے جوزن ایرا میں خواتین کی قلت کیوں نہ ہوگئ؟
جملہ وزراء کیلئے۔: بھئی اولاد پر بھی اعتبار نہ کرو اگر حکومت کرنی تو خود اپنے لیئے منصوبے بنائو۔ اور مردار بلائیں پالو مگر یاد رکھو انسان کو مارنے کیلئے زہر ہی کافی ہے۔
طبیبوں کیلئے۔۔ بھئ جب کوئی مرر ہا ہو اسے مرنے دو۔ کوئی مارنے جا رہا ہو تو اسے مارنے دو۔ سارے فتنہ و فساد ایک طرف ایک اس طبیبہ کے پھیلائے فتنے ایک طرف۔ اسی کو یہ بیماری لگتی تو بہتر تھا۔ پہلے فتنہ پرور وزیر کو بچالیا جس نے زندہ ہوتے ہی دو درجن گھرانوں کے سب جملہ اہل خانہ کا سر قلم کروانے کا حکم دے دیا دوسرا ملکہ کے لے پالک ایک غلام زادے کو بچا کر اس بیماری کو نہ ختم ہونے کا عندیہ دے ڈالا ۔۔ ایسی ایسی جگہ سے بچ نکلی ہے کہ میں مصنف ہوتی تو اسی کو اس بیماری کی جڑ قرار دے ڈالتی۔۔
بادشاہ کم شہزادے احمق کیلئے۔۔
دنیا میں کہیں ایسا شہزادہ یا بادشاہ دیکھا نا سنا جو ہر جگہ ہر مصیبت میں سب سے آگے ہوتا ہےاور اپنی عوام کیلئے سر دھڑ کی بازی لگاتا ہے۔ احمق اتنا کہ اپنا سب سے قابل بھروسہ انسان تک کی اصلیت سے ناواقف جان کے دھوکا کھاتا رہتا ہے۔ بعد میں اسی کی اولاد کو سب سپرد کردیا مطلب اتنے جوکھم کس خوشی میں اٹھاتا پھرااگر یہی سب کرنا تھا؟؟؟؟
ذاتی رائے: ماشا اللہ سے ایسا عجیب وغریب زومبی والا ڈرامہ کبھی نہ دیکھا ۔ کبھی کوئی بادشاہ کے کاٹے سے بیمار ہو کر مرتا ہے تو کوئی اس کا گوشت کھا کر خود مردار درندہ بن بیٹھتا ہے۔ کبھی دن میں سکون سے لاش بن کے پڑے رہتے ہیں تو کبھی دن میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا ہوا ۔ کوئی پانئ میں گر کر مررہا ہے تو کوئئ پانی سے شفا یاب۔ لگتا ہے بیماری خود بھی متزلزل ہی تھی آیا پھیلوں نہ پھیلوں کیسے پھیلوں؟؟؟پورے ڈرامے میں ایک منظر ایسا نہیں کہ بے چارے بادشاہ کم شہزادے کو دو پل کا سکون میسر آیا ہو۔ اتنا ترس آتا رہا ہے اس پر کہ دل کر رہا تھا تلوار لے کر خود بھی گھس جائوں ڈرامے میں یا کم از کم اسے یہ مشورہ دوں او بھائی ہجرت کر کسی پرسکون گوشے میں گمنامی کی زندگی گزار کیوں جھنجھٹ میں پڑ رہا ہے؟۔ پوری سلطنت کو مصیبت میں ڈالنے والا وہ لڑکا کم آدمی اتنا کچھ جھیلے گا بادشاہ کو بچائے گا کہ اسکے گناہ دھلے گئے اور پورے ڈرامے میں انتہائی بیبی بچی بن کر سب کا علاج کرتی پھرتی طبیبہ آخر میں اس منحوس بچے کو بچا کر نیا عذاب سلطنت کو جب دیتی ہےتو پچھلی ساری نیکیاں دھل جاتی ہیں۔بھوکا پیاسا جنگیں لڑ کر اپنے لوگوں کے لیئے خون پسینہ بہا کر جب بادشاہ صاحب تخت کو لات مارتے ہیں تو ایک مکا مصنف کی ناک پر بھی مارنے کو دل کرتا ہے۔ بھئ دیکھو یہ ڈرامہ 12 اقساط کا زومبی ڈرامہ پھر جانے دیکھنے کو ملے نہ ملے ضرور دیکھو سب ۔ اپنی سب پریشانیاں بھول کر بادشاہ کی پریشانیوں میں ہلکان نہ ہونے لگو تو پھر کہنا۔۔

by Desi Kimchi

Exit mobile version