غیر معروف اور متروک فلمیں جنہیں شائد بس انکے ہدایت کار نے ہی پورا بیٹھ کے دیکھا ہو انکو نہ صرف ڈھونڈ کے دیکھنے بلکہ پورا دیکھنے کے اوپر کوئی عالمی ایوارڈ ملتا تو یقینا مجھے ملتا۔ کل کے ڈرامے ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک کے یہ فلم ملی تو مجھ پر یہ دیکھنا فرض ٹھہرا۔ اور آپ سب پر میرا یہ تبصرہ پڑھنا تو چلو دونوں اپنے اپنے فرض کو پورا کریں۔ یہ فلم ماشا اللہ سے اتنی نئی تازی ہے کہ اسکا پوسٹر بھی نہیں ملا مجھے کہ یہاں شائع کر سکوں۔۔۔
کہانی شروع ہوتی ہے ایک عارضی نوکر کی زندگی سے جو ایک بڑے سے مارٹ میں صفائی کا کام کر رہا ہوتا ہے اور ایک بد شکل بھوت جیسا آدمی بیٹھا اسے گھور رہا ہوتا ہے۔ اب یہ اس سے ڈرتا ہے اچانک پورے اسٹور کی بتیاں جل بجھ کرنے لگتی ہیں اور نمودار ہوتی ہے ایک کالی اسکرٹ میں ملبوس بکھرے بالوں گیلے کپڑوں والی بھوتنی جس نے سینڈلز ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ چیختا ہے وہ بھی چیختی ہے اور بتیاں جل بجھ کرنا بند ہو جاتی ہیں۔ پتہ چلتا ہے یہ بھوتنی بھتنی نہیں اسکی بپچن کی سہیلی ہے جو اس وقت اپنی سب کمائی لٹوا کر اس لڑکے سے اپنے ادھار کی واپسی کا تقاضا کرتی ہے۔یہ لڑکا رو پڑتا ہے یہ بتاتے کہ اسکے دیئے گئے تمام ادھار کے پیسوں سے وہ نئے مکان کا پیشگی کرایہ ادا کر چکا ہے۔ لڑکی اسکے بال وال نوچ دیتی ہے مگر اب اسکے گھر میں اسکے ساتھ آ رہنے لگتی ہے اسکی منطق درست ہے کہ اس پیشگی کرائے میں بڑا حصہ اسکے پیسوں سے ادا کیا گیا ہے تو اسے پورا حق ہے کہ یہاں رہے۔ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ یہ گھر نہایت خوبصورت اور فرنشڈ ہے اور سستا بھی۔ لڑکی کا ماتھا ٹھنکتا ہے او رپیر ایک گڈے پر پڑتا ہے جو پر اسرار طور پر پورے گھر کا طواف کرنے کا عادی ہے۔ دونوں اس گھر میں ڈرتے پھرتے ہیں پتہ لگتا ہے اس گھر میں ایک لڑکی نے خودکشی کی ہے اور اسکی روح پھرتی ہے۔ اب یہ دونوں مکان نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ پیسے نہیں اور وہ لڑکی انکو مکان چھوڑنے بھی نہیں دے رہی وجہ آخر میں پتہ لگے گی۔ خیر ان کو ایک نوجوان عامل بھی ملتا ہے اور تینوں مل کر اس بھوت کے مسلئے کا سد باب کرنے میں جت جاتے ہیں
کہانی سے بڑے اسباق ملتے ہیں۔
عامل کیلئے
بھئ عامل باوا بننے میں اندھی کمائی ہے مگر اسکا رسک بھی اتنا ذیادہ ہے کہ کبھی اتارا کرنے جائو تو اصل بھوت بھی نظر آسکتے ہیں۔سر منڈاتے ہی اولے پڑے انہی موصوف کیلئے محاورہ بنا ہوگا۔
ہیرو کیلئے
اونٹ اور خیمے والی مثال ضرور پڑھو جاننے کی کوشش کرو کیا سمجھایا گیا ہے اس مثال سے۔ موصوف نے ہمدردی کے مارے مدہوش دوست کو گھر پہنچایا اپنے اور وہ پھر اس گھر میں ہی رہنا شروع ہوگئ۔ ویسے ایک اورسبق بھی ملتا ہے اگر گھر میں آسیب ہو اور پتہ چل جائے کہ بھوتنی ہی ہے تو کبھی اپنی خاتون دوست کو گھر نہ لائو پتہ بھی نہیں لگنا خاتون چڑیل کب بنی ۔ویسے تو تم گدھے کو بھوت سامنے بھی بیٹھا ہو تو پہچاننا مشکل ہوتا خیر۔۔۔۔
ہیروئن کیلئے۔
ادھار محبت کی قینچی ہے۔ یا محبت کرو یا ادھار ۔ ان موصوفہ نے دونوں کام کیئے اور جب لگنے لگا کہ قتل بھی کر لیں گئ تو ڈرامائی انداز سے بال بال قاتل بننے سے بچ گئیں۔ یہ موصوفہ ویسے تو چیخیں مار مار کر ڈرتی رہیں مگر جیسے ہی پتہ چلا چڑیل چڑیلوں جیسے کام کیوں کر رہی ہے بس انہوں نے فٹ سے پارٹئ بدل لی اور بھوتنی کے ساتھ ہوگئیں۔۔
قاتل بھیا کیلئے۔
بھئی اگر قتل کر لو تو اپنی مقتول سے کئی میل دور چلے جائوورنہ بھوتنی بن کر ڈراتی پھرے گی۔ اس سے ذیادہ مشورے دیئے تو کہانی کھل جائے گی
چڑیل صاحبہ کیلئے۔
یہ موصوفہ خود کو مظلوم سمجھ کر سب کو ڈرا ڈرا کر جان خشک کرتی پھریں انکی سوائے اپنے قاتل کے۔مطلب ایک تھپڑ لگانے کو دل کیا جب مظلوم بنی چلا چلا کر کہہ رہی تھی دس از ان فئیر او بی بی خود جو معصوم لوگوں کو ڈرا ڈرا کر بنا جوتے پہننے کا موقع دیئے میلوں بھگاتی رہی ہو اٹھا اٹھا کے چیزیں پھینکتی رہیں اتنی تیس مار خان تھیں تو اپنے ثبوت بھی نکال کے پولیس اسٹیشن خود پہنچا دیتیں اپنے قاتل پر لوبیئے کنکر کی طرح مار کر دکھاتیں جس طرح اپنی ڈرائونی شکل ان تینوں کو دکھائی سیدھا سیدھا اپنے قاتل کو دکھا دیتیں بے چارے میرے ہیرو کو باتھ روم میں بھی ڈرایا اور ہیروئن کے سامنے شرمندہ بھی کروایا ٹھرکی چڑیل کہیں کی۔
ذاتی رائے۔
دیکھ لو دیکھ لو ڈرائونی فلم ڈرائونی ہی نہیں ہے مزے کی ہے۔ خاص کر ہیروئن کی چیخیں مار مار کر چڑیل بننے کی اداکاری کمال کی ہے۔اور ہیرو اور وہ سائیڈ ہیرو پیارے ہیں اسلیئے دیکھو۔ سائیڈ ہیرو تو ذیادہ ہی پیارا ہے ڈرتا بھی بہت پیارا ہے۔ پیارےلڑکے پسند تو بھی دیکھ لو۔آخر میں نے بھی دیکھی ہی نا یہ فلم۔۔