Desi Kimchi |desi kdrama fans|

Mouse kdrama urdu review

کبھی کوئی فینٹیسی ڈرامہ دیکھنے کے بعد آپکو ایسا لگا کہ آپ کی اچانک نو دمیں نکل آئی ہیں؟ یا آپ کسی اور دنیا میں چلے چلی گئے ہیں؟ یا آپ آج سے امر ہوگئے ہیں یا آپکی زندگی میں وجیہہ خلائی مخلوق آگئ ہے وغیرہ۔۔؟؟؟؟
نہیں نا؟ مگر آج میں ایک ایسے ڈرامے کے بارے میں بتائوں گی جس کو دیکھنے کے بعد آپکو اپنے اندر ایک بے رحم درندہ بیدار ہوتا محسوس ہوگا۔
اچھا اچھا پتہ لگ گیانا کونسا ڈرامہ ہے۔ہاں وہی مائوس۔
کیا خوب ڈرامہ ہے۔ پہلی قسط سے قتل و غارت کی ابتدا ہوئی آخری قسط تک جاری رہی۔ اسکے سوا اور کیا ہوا۔۔ اب یہ بیس قسطیں دیکھنے والے بتائیں انہوں نے کیا کیا کر ڈالا اپنی اصل زندگی میں۔
کہانی ہے ایک عدد بچے کی جو ایک عدد چوہا لیئے پھرتا ہے۔ موصوف نے چڑیا گھر میں سانپ کے شیشے کے گھر میں چوہا ڈال دیا جس نے سانپ کو چیرپھاڑ کھایا۔ اف ہوا نا تجسس۔۔
بس اب تجسس کی ماں بہن ہی نہیں خاندان پورا بلکہ پورا ننھیال ددھیال ایک ہوگا۔
کہانی میں نفسیاتی قاتل دندناتے پھر رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک برساتی ڈڈوئوں کی طرح نکلتے چلے آتے ہیں اور ایسی ایسی انوکھی وجوہات پر مارتے پھرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔مطلب بہت سی اہم وجوہات ہو سکتی ہیں مارنے کی جیسے آپکے گھر میں آئے مہمان آپ سے گریڈز پوچھ لیں آپکے، بہن بھائی آپکی فریج میں چھپا کے رکھی چاکلیٹ کھا جائیں یا بھائی سہیلی کے گھر چھوڑ کر آنے سے انکار کردے یا بہن بنا پوچھے آپکی کوئی چیز استعمال کردے پہلا خیال قتل کرنے کا ہی آتا ہے مگر نہیں جی ان میں سے کوئی وجہ نہیں قاتلوں کی قتل کرنے کی۔۔بس انہوں نے کرنا ہے اور کرکے وجہ ڈھونڈنی۔
جو قاتل لگتا رہا بے چارہ مفت میں مارا گیا جو بے رحم قاتل نکلا وہ پوری کہانی میں سب سے معصوم اور بےچارہ ہوگا کہ آخرمیں دل کرےگا کہ قاتل کی۔بجائے آپ اقبال جرم کرکے اوپا کو بچا لیں۔
کہانی سے بہت سے اسباق ملتے ہیں مگر آپ کوئی سبق مت لیجئے گا۔ کیونکہ اصل زندگی میں سزائے موت ہی ہوتی ہے قاتل کو خیر۔۔
بچوں کیلئے۔
قتل ہوتے مت دیکھیئے۔ چاہے اماں ابا ہی کیوں نا قتل ہو رہے ہوں۔ قتل کرنے میں مدد بھی مت کیجئے چاہے جوابا آپ خود ہی قتل ہوجائیں۔ قاتل دیکھ لیں تو پھر کیا ۔۔ اب جو کچھ کرنا ہے قاتل نے ہی کرنا آپ کیا اکھاڑ سکتے ؟
ولنوں کیلئے۔۔
ماشا اللہ سے اتنے ولن ہیں اس ڈرامے میں کہ فردا فردا سب کا تھوڑا سا بھی ذکر ہو تو صفحے بھر جائیں ایسےہی تو نہیں 20 قسطیں ہیں اس ڈرامے کی پھر دو خاص اقساط اور تو اور فلم بھئ بنا ڈالی۔ اس ڈرامے کی ہر کہانی پر الگ سے پندرہ قسطوں کا ڈرامہ بن سکتاہے۔ ماشااللہ سے اتنا خرافاتی چلتا پھرتا بلکہ دوڑتا دماغ ہے لکھنے والوں کا۔
خیر
سب سے پہلے ولن انکل۔
بھئ ایک تو آپ کاکا خودی قتل کرتے پھر رہے اوپر سے اپنا ورثہ یعنی قتل کرنے کی صلاحیت اور جزبات سے عاری پن اگلی نسل میں بھی بھیجنا ہے تو اپنے ہی گھر کے اسنو مین میں کھوپڑیاں نہ چھپائیں پکڑے جا سکتے ہیں۔
ولن آنٹئ۔
یہ ولن انکل کی بیوی ہیں اور سچ پوچھیئے تو اصل ولن ہی یہی ہیں۔ کبھی اپنے میاں کی صفات والا بچہ پیدا نہ کرنے کی قسمیں کھائیں پھر پیدا کر ڈالا۔بچہ بدل لیا ۔ پھراپنے اصلی بچے کو قتل کرنے پہنچ گئیں۔اور آخر میں اپنی لے پالک اور حقیقی دونوں اولادوں کی دل بھر کے زندگی برباد کرکے مروا دیا واہ۔ ان آنٹی کو بروقت مروا دیتے تو ڈرامہ 5 قسطوں میں ختم تھا۔
دوسری ولن آنٹی۔
بی بی نے اپنا ہنستا کھیلتا بچہ مزے سے بانٹ دیا جیسے ریوڑیاں بانٹتے ہیں۔ویسے انکا خاندان ہی منحوس تھا۔ سب کے نصیب میں کتے کی موت مرنا تھا بس بیٹا بانٹ دیئے جانے کے باعث بچ گیا تھا۔۔ ویسے اپنا قاتل ہو سکنے والا بچہ اس ڈر سے کہ وہ بڑا ہوکر قتل کرے گا ایک ایسی خاتون سے بدل لیا جن کے بچے میں کم و بیش یہی خصوصیات تھیں مزید برآن انکا موجودہ شوہر درجن بھر قتل کرکے جیل میں سزا بھئ کاٹ رہا تھا۔ہے نا منطق کا قتل عام؟؟؟
تحقیق کار انکل۔۔
جب دنیا مریخ پر جا رہی ہے نت نئے ستاروں پر زندگی کے آثار ڈھونڈ رہی ہے یہ دنیا میں زندگی ختم کرنے کے طریقے پر تحقیق کر رہے ہیں۔موصوف ماہر پیش گو ہیں۔ بچہ دیکھ کر بتا دیتے ہیں بڑا ہو کر قاتل بنے گا۔ انکو اگر پاکستان میں عامل باوا بنا کر کسی دربار پر بٹھا دیں تو ٹھیک ٹھاک کما سکتے ہیں۔ بس انکے پاس بے اولاد والدین کی بجائے ناخلف اولاد والے والدین بھیجے جائیں۔
فادر بھیا۔
بھئ اچھے بنو مگر اتنے بھئ اچھے نہ بنو کہ ہپ ہپ سب کھا پی جائیں۔اگلا بندہ گلے پر چھری رکھے کہہ رہا کہ غصہ کرلو جان بخش دوں گا مگر نا جی یہ اچھے بنے ہوئے تھے غصہ کرکے نہ دیا۔ کوئی بھی انکی جگہ ہوتا تو کم از کم غصہ تو کر ہی لیتا۔ لعنت بھیج دیتا منہ پر تھوک دیتا۔ کچھ تو کر لیتا اتنے موقع دیئے میرے پیارے قاتل اوپا نے مگر انکی ائی ہوئئ ہی تھئ۔
انسپیکٹر بھیا یا سائیڈ ہیرو جو کہہ لو۔
انکا بچپن کا خواب تھا قاتل بننے کا۔ پورا ڈرامہ کوشش کر کرے مارتے پھر مگر قتل کرنے کا شوق پورا ہو کے نہ دیا یہاں تک کہ کسی کو قتل کر ہی ڈالا تھا اگلا بچ گیا۔ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو پیدائشئ منحوس ہوتے ہیں۔ انکے نام سے پرائز بانڈ لو کبھی نہ نکلے گا۔ سموسے لینے جائیں تو چٹنی ختم ہو جاتئ ہے۔ انکو زندگی میں وافر بس زندگی ملتی ہے۔ اتنے منحوس ہوتے ہیں کہ قتل گاہ میں اگلی ہیروئن خود لائن ماررہی تھی تو بونگا پن دکھا کے منع کردیا پھر پورا ڈرامہ لنڈورے پھرے۔۔
سائیڈ ہیرو نمبر دو۔
دنیا میں لوگوں کو جیمز بانڈ بننے کا شوق نہ ہو تو دنیا کیسی پرسکون جگہ ہو۔ مگر نہیں آ بیل مجھے مار، کلہاڑی پر پائوں مارنا ، آسمان سے گرنا کھجور میں اٹکنا بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔۔ یہ سب محاورے انسانی شکل میں اس اوپا میں دکھائی دیں گے۔
موصوف پرسکون زندگی میں ہلچل مچانے کیلئے قاتلوں کا تعقب کرتے پھرتے ہیں اس وقت تک جب تک قتل نہ ہوجائیں۔ایسے لوگوں کیلئے بندہ کیا کہے۔تاہم یہ تیز انسان تھے۔ اپنی اگلی نسل چھوڑ کر مرے۔۔ یقینا مائوس ٹو میں انکی بیٹئ قاتل بنے گئ لکھوا لو
سائیڈ ہیرو کی ہیروئنی۔
یہ موصوفہ بچپن سے نفسیاتی تھیں۔۔۔ اپنے بھائی کو جنگل میں اکیلا چھوڑ کر قتل کروانے سے اپنے شاندار کیریئر کا آغاز کیا ایک نفسیاتئ کی مدد کرواتی رہیں اسکے قتل کرنے کیلئے لوگوں کو گھیرتے گھیرتے جوان ہوئیں ایک اور نفسیاتی سے پیار کرکےایک نفسیاتئ سے قتل کروانے کا کہہ کر ایک اور نفسیاتئ سے نفسیاتئ لوگوں کا قتل کرواتی رہیں۔ اپنے اماں ابا کو اپنی یاد میں تڑپتے چھپ چھپ کے دیکھتی رہیں۔یہ آنٹی نما ہیروئنی سچ پوچھیں تو اس ڈرامے کے چیدہ چیدہ قاتلوں سے ذیادہ بڑی نفسیاتئ تھیں اور ڈاکٹر ڈینئیل کی تحقیق کے ڈبہ بکواس ہونے کا سب سے بڑا ثبوت بھی۔۔
ہیرو کی ہیروئنی۔
یہ موصوفہ بھئ ماشا اللہ سے بچپن سے قاتل بننے کی کوشش میں لگی رہیں۔ خود مزے سے ادھر ادھر اقدام قتل کرتی پھریں آخر میں ہیرو کو قتل کرنے کا بھوت سوار ہوا۔اور چونکہ ہیرو نے قتل کر دیئے تھے اس بات پر اس سے نفرت بھئ کی۔ ایسی منافق لڑکی نہ دیکھی اوپر سے لنجھی اتنی کہ ہاتھ زخمی ہوئے تو چلنے سےمعذور ہوگئیں ساٹھ کلو وزن کے ساتھ اوپا پر سواری کی لی سن گی پر اتنا ترس آیا مجھے کیا بتائوں
ہیرو۔۔
ہائے معصوم۔ بد اچھا بد نام برا۔ اس بے چارے کو محض ڈاکٹر ڈینئییل کی کمینی تحقیق نے قاتل بنا چھوڑا۔اسکی زندگی میں ڈاکٹر ڈینئیل نہ آیا ہوتا تو کیا اچھی زندگی گزارتا یہ۔میری سب ہمدردیاں اسکے ساتھ ہیں۔ اتنا پیارا قاتل مارنے آئے تو بس مسکرانا کافی ہو ہم ڈمچیز کیلئے۔ مگر یہ کورین ناشکرے۔ دشمن ہو کے رہ گئے اسکے۔مار کے دم لیا۔ اتنی تکلیفیں دیں۔دماغ تک بدل دیا۔بے چارہ ۔۔۔ اس سے بڑا ظلم ہو سکتا بھلا کہ آپکے اچھے بھلے شیطانی دماغ میں معصوم دماغ لگا دیا جائے۔ اب اندر ہی اندر جنگ چل رہی ہو یہ معصوم منحوس حصہ دماغ کا آپکو ہر قتل سے پہلے بعد میں ڈراتا پھرے۔۔۔ ہونہہ۔
ذاتی رائے۔
بھئی دیکھ لو یہ ڈرامہ۔ایکشن سنسنسی تماشا رومان سب کچھ ہے۔یوں سمجھیں متنجن ہے۔ اسٹار پلس کے سوپس والی کہانیاں بھی ہیں۔ یوں سمجھیں بیک وقت آپ انڈیا پاکستان اور کوریا کا ڈرامہ گھوٹا لگا کے دیکھ رہے ہوں۔ اس میں آخر تک تو وہم ہوگا کہ جو قاتل لگ رہا وہ قاتل نہ ہو۔۔ ہوگا وہی بے چارہ مگر کچھ منطقوں کا قتل عام بھی ہوگا۔ سب سے پہلے والے دماغ کے سرجن قاتل انکل جنکے قتل کرنے سے کہانی کا آغاز ہوگا وہ موصوف جزبات سے عاری نفسیاتی ڈاکٹربنے تھےمگراتنی شدید محبت بیٹے سے دکھائی کہ اسکی جان بچانے کیلئے پاگل ہوئے رہے اور اسکی محبت میں ہی مر مٹے، قاتل اوپا کی مدد کرنے کیلئے قانون کی دھجیاں بکھیر دی گئیں ، مطلب سزائے موت کا قیدی جو اکیلا پڑا ہے اسکو بیٹھے بٹھائے قتل کروادیا ۔۔پاکستان ہوگیا کورریا تو۔۔ اچھا بھلا ایک قاتل سدھر گیا اس سے کہہ کہہ کر دوبارہ قتل کروائے اور کسی ملک کی اکثریتی جماعت کی رہنما کو اور کوئی کام تھا نہیں ایک قانون پاس کروانے کیلئے ملک میں نفسیاتئ پیدا کرواکر لوگ مرواتی رہیں واہ مطلب کچھ بھئ۔ آبادی کم کرنے کا کوئی اچھا طریقہ نہ سوجھا انہیں۔۔ بھئی اتنا لمبا ہوگیا تبصرہ مگر ابھی بھی بہت باتیں ہیں خود ہی دیکھ لو ڈرامہ اور اگر پورا دیکھ سکو تو یہ چھری انعام میری طرف سے اچھا میں چلی قتل کرنے۔میرا مطلب ہے کام کرنے تم لوگ جائو قتل کرو۔ میرا مطلب اوفوہ دیکھو۔

Exit mobile version