اوہ مائی بےبی۔
ایک اور ایسا ڈرامہ جس میں نہایت اہم سماجی مسلئے پر روشنی ڈالی گئ ہے۔ یہ ڈرامہ جھنگ ہارا نامی لڑکی کی کہانی ہے جو بہت خوبصورت ہے بہت ذہین اپنے کام کی ماہر ایک میگزین میں اچھے عہدے پر فائز جو اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزار رہی ہے اچھا کھاتی ہے اچھا پہنتی ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ ایک حقیقت اسکا پیچھا کر رہی ہے کسی عفریت کی طرح کہ اسکی عمر گزر رہی ہے۔ 39 سالہ دوشیزہ جس کو اپنی زندگی میں سب کچھ خود حاصل کرنا پڑا طویل جدوجہد کے ذریعے کہ اس کو محبت اور شادی کا دور نصیب ہی نہ ہوسکا۔ اب مسلئہ یہ درپیش کہ وہ چونکہ عمر کے درمیانی حصے میں ہے سو اسکے پاس وقت کم ہے اور وہ شادی بھی کرنا چاہتی ہے ماں بھی بننا چاہتی ہے مگر خالص مردانہ معاشرے میں اسکی یہ جائز خواہش کتنا اسے خوار کرتی ہے یہ بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
جھنگ ہارا کے پاس مواقع محدود ہیں اسکی زندگی میں یہ تین مرد ہیں جن میں ایک طلاق یافتہ ایک بیٹی کا باپ ہے۔جس کے لیئے وہ کسی قسم کے جزبات نہیں رکھتی دوسرا بہترین آپشن اس سے عمر میں دو سال بڑا مرد ہے جو تقریبا اسی جیسے حالات سے گزر رہا مگر مرد ہونے کے ناطے اسے بہت سے معاملات میں سبقت حاصل ہے۔ وہ ذمہ داری میں نہیں پڑنا چاہتا ، شادی بچے اسے پسند نہیں وہ اکیلا بھرپور وقت گزار رہا ہے اسکو واحد جو چیز تنگ کرتی وہ اسکی ماں کی جانب سے ہلکا پھلکا سا شادی کرلینے پر زور ہے جسے وہ کندھے سے گرد کی طرح جھاڑ لیتا ہے۔ تیسرا سب سے کم عمر نوجوان لڑکا ہے جو اٹھتے بیٹھتے اس جھنگ ہارا کو اسکے عمر میں زیادہ ہو جانے کے طعنے دیتا اسے آنٹی کہتا ہے اسے اپنے نوجوان ہونے پر غرور ہے اسکے نزدیک بڑی عمر کی لڑکی اسکی خالہ آنٹی عورت کچھ بھی ہو سکتی مگر اسکی گرل فرینڈ یا بیوی نہیں۔ یہاں تقابلی جائزہ دکھایا گیا ہے کہ چالیس کے قریب والا اکیلا مرد بھرپور زندگی گزار رہا ہے جبکہ اسی عمر کی عورت پر زندگی کے دروازے بند ہوتے جارہے ہیں۔ اسکی کولیگ اس کو جتاتی ہیں کہ وہ عمر میں بڑی ہو چکی ہے اسکے کولیگ اسکو سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ وہ ایک بڑی عمر کی عورت بن چکی ہے۔ اگر یہ ڈرامہ میں لکھ رہی ہوتی تو میں نے سب سے کم عمر کے لڑکے کو اس سے محبت میں مبتلا ہوتے دکھا کر اسکو تفریحی ڈرامے سے دماغ کھولنے والا ڈرامہ بنانا تھا۔۔ پختہ سوچ پختہ عمر جرم نہیں بلکہ زندگی کو اچھی طرح گزارنے کا ڈھنگ ہے۔
یہ مسلئہ پاکستان میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔
آخر ہم کیوں ایسے ہوتے جا رہے ہیں کہ کسی کو اسکی عمر کے طعنے دیتے ہیں جبکہ ہم بھی ایک دن اس عمر تک پہنچیں گے، کسی کو شادی نہ ہونے پر مجرم گردانتے اور حیران ہوتے تمسخر اڑاتے جبکہ شادی کی کوئی عمر متعین ہی نہیں ہم سب جانتے قسمت کے کھیل ہیں، آخر ہم اپنے بھائی کیلئے رشتہ دیکھتے سمجھدار لڑکی کی۔بجائے کم عمر لڑکی کیوں ڈھونڈتے ہیں جبکہ اس کم عمر لڑکی کو نہ گھر سنبھالنا آتا نہ خود کو وہ اگلے نئے گھر کی بنیاد کیسے مضبوط ڈال سکتی جبکہ وہ خود ابھی مضبوط شخصیت کی حامل نہیں بنی؟۔
یہ ڈرامہ دیکھ کر مجھے بڑا عجیب لگا مجھے لگتا تھا یہ ذہنی پسماندہ سوچ صرف برصغیر کا حصہ ہے مگر نہیں پوری دنیا میں عورت ہونا عذاب ہی ہے۔ کہانی زبردستی بڑی عمر کے مرد کو ہیرو بنانے کی جانب موڑی جا رہی ہے جو کہ مجھے بہت برا لگ رہا۔ یہ سوچ کب بدلی جائے گی؟ لڑکیوں کے ساتھ ایسا کیوں کہ وہ تو آرام سے اپنے سے دگنی عمر کے مرد سے شادی کرلیں مگر مرد اپنے سے چند سال بڑی کو آنٹی باجی کہہ کر اسکا تمسخر اڑاتے ہیں چھوٹا بننے کی کوشش کرتے ہیں اپنے لیئے کسی چھوٹی عمر کی لڑکی کو ہی بہتر گردانتے جبکہ آپکا مزہب آج سے چودہ سو سال پہلے ایسے تمام رواجوں کو منسوخ کر چکا ہے اور آپکے نبی ص کی سنت ہے اپنے سے دگنی عمر کی عورت سے شادی کرنا ، اخر داڑھی رکھنے کے شوقین مرد اس سنت پر عمل کیوں نہیں کرتے؟
اور لڑکیاں وہ کس خوشی میں اس سب کا حصہ ہیں؟ آپ اگر آج بڑی عمر کی نہیں تو کل کو ضرور ہونگی کسی کو سال دو سال کی چھوٹائی بڑائی پر جج کرنا یا اس سے بڑی چھوٹائی بڑائی پر* بڑا * بنا کر اسکا تمسخر اڑانا آپکا چھوٹا پن ہے۔یقین جانیئے۔۔
ایک بار ایک آنٹی جن سے میری دوستی ہوگئ اور حقیقتا انکی اولاد کے برابر تھی میں جب انکو آپ جناب کے ساتھ میں نے انکو آنٹی کہنے کی بجائے انکا نام لیا تو مجھے انکے الفاظ آج تک نہیں بھولتے وہ کہتی ہیں
مجھے ایکدم جوان سا محسوس ہوتا ہے جب آپ مجھے ایسے پکارتی ہو لگتا ہے میں کوئی جوان بچوں کی ماں نہیں بلکہ واقعی آپکی سہیلی ہوں۔۔۔
اور یقین کیجئے وہ بالکل سہیلی کی طرح پیش آتی تھیں جو ہم سے بڑے ہیں وہ ہم سے زندگی کا بہتر تجربہ کرچکے جس مقام پر ہم ہیں وہ اس ذہنی سطح کو جھیل چکے یقینا وہ ہمیں اپنی زندگی کے تجربوں سے بہتر مشورہ دے سکتے بہتر دوست بن سکتے ہمارے ہم عمر جذباتی دوستوں سے بہتر۔۔۔
اور اس دن مجھے لگا کہ ہمارے چھوٹے سے رویئے کسی کی زندگی بدل سکتے ہیں۔