pagglait
دیکھی۔ کل ۔ شائد کافی لوگوں کو بور لگی ہوگی۔ مگر مجھے نے حد اچھی لگی۔ کیوں وجہ بتاتی ہوں ۔
کہانی ہے ایک عدد لڑکی سندھیا گری کی جو سیدھی زندگئ گزار رہی ہوتی ہے اور اسکا شوہر پانچ مہینے کی شادی شدہ زندگی گزار کر مر جاتا ہے ۔ گھر میں اسکے آخری کام چل رہے ہیں سب اداس پریشان ہیں دور دور سے رشتے دار آرہے ہیں سب پرسہ دے رہے تعزیت کر رہے ساس دیور سسر سب نے رو رو کر برا حال کر لیا اپنا سوائے لڑکی کے۔ اسے کوئی دکھ محسوس نہیں ہو رہا۔ اسکو بھوک بھی لگ رہی ہے اسے رونا بھی نہیں ہے۔ مگر کیوں؟ یہی سوال اس کہانی کی اساس ہے۔
اس لڑکی ( ثانیہ ملہوترا) کے والدین اس سے ملنے آئے ہیں جیسے مسلمانوں میں تیجا چالیسواں ہوتا ہےہندوئوں میں تیرہواں ہوتا ہے جسکے بعد کہتے ہیں روح اوپر چلی جاتی ہے۔ بہو کی حالت دیکھ کر سسرال والے اپنے منہ سے کہتے ہیں آپ اپنی بیٹی کو کچھ دن کیلئے لے جائیں تو لڑکی کی ماں فٹ سے انکار کر دیتی ہے یہ سسرال ہے اسکا یہیں رہے گی۔ وجہ؟ اس لڑکی کی دو تین مزید بن بیاہی بہنیں ہیں۔ یہ لڑکی چونکتی ہے مگر بولتی کچھ نہیں۔ اسکو اس گھر میں بھی دلچسپی نہیں تھی وہ تو میکے جانے کا ارادہ ہی کرکے بیٹھی تھی۔مگر۔۔
اسکا شوہر ایک عام سا مرد تھاجو گھر کی سب ذمہ داریاں اٹھا رہا تھا ایک اچھا بیٹا بن کے اس نے اپنے باپ کو ریٹائر کروا کر گھر میں بٹھا دیا تھا چھوٹا بھائی پڑھ رہا تھا مگر اسکے وہ دلی قریب نہیں تھا یہ کوئی بڑی بات نہیں بس یہ کہ دلی قربت اسکی اپنی بیوی سے بھی نہ تھی۔
پہلے بتا دوں آگے کہانی میں اسپائلر ہے۔ اگر فلم دیکھنے کا ارادہ ہے تو یہاں سے پڑھنا بند کر دیجئے۔
ہاں تو اس دلی قربت کے نہ ہونے کی وجہ کیا تھی؟ بلکہ کہنا چاہیئے کون تھی۔ جی وہ ایک عدد لڑکی عکانشہ تھی۔ اسکی گرل فرینڈ (سایانی گپتا)جس سے شادی نہ ہوسکی۔ پہلے صرف دلی قربت نہ محسوس ہونے کی وجہ سے لڑکی کو دکھ نہیں ہو رہا تھا مگر اسکے پرانے سامان کو الٹ پلٹ کرتے جب گرل فرینڈ کی تصویر دیکھی اس تصویر کے پیچھے محبت بھرا اظہار دیکھا تو تب بدن میں آگ بھی لگ گئ۔ وجہ ؟ یہ اظہار کبھی اسے نصیب نہ ہوا۔ اسے لگنے لگا کہ وہ بے کار ہی شادی شدہ کا اپنے ساتھ منسلکہ لگا بیٹھی اور اب بیوہ کا۔ کبھی گرل فرینڈ کو بلا کر باتیں سناتی کبھی اس سے دل کی ہر بات کہہ ڈالتی۔ ایک ہی شخص کی بیوی نفرت کر رہی ہے اس سے اور گرل فرینڈ نے رو رو کے آنکھیں سجا لیں اسکے چلے جانے پر ۔
مگر کیا وہ لڑکا بے وفا تھا؟ نہیں ۔ ہرگز نہیں۔ اپنے سب جزبے لٹا چکنے کے باوجود وہ اپنی شادی کے بعد بیوی سے وفادار تھا۔اتنا کہ انشورنس پالیسی لے رکھی تھی بیوی کے لیئے وہ بھی پچاس لاکھ کی جسکی کلی وارث وہ تھی۔ یہ بات کہانی میں وہ موڑ لے آئی کہ اس لڑکی کی زندگی بدل گئ۔
ساس سسر گھر کے خرچے سے پریشان تھے اکلوتا کمائو پوت مر چکا تھا دوسرے کو پیروں پر کھڑے ہونے کیلئے وقت درکار تھا ایک گھر بن رہا تھا جسکی قسطیں ادا کرنی تھیں مگر بیٹے کے مرنے کے بعد جو پیسہ ملنا تھا سب بہو کو مل گیا تھا۔وہ تنگ دل کم ظرف یا لالچی نہ تھے مگر مجبور تھے اسکے باوجود کوئی ساز ش نہ رچی صبر کیا سوچا شائد وہ کم از کم آدھی رقم انہیں دے۔
گھر آئے مہمانوں میں ایک نوجوان لڑکا جسکو کاروبار کرنے کیلئے پیسہ درکار تھا وہ اب اس بیوہ سے شادی کا۔خواہشمند تھا۔ ساس بھی یہی چاہتی تھی کہ شائد اس طرح رشتے داری کے ناطے کچھ رقم انہیں مل جائے۔
وہی ماں جو بن بیاہی بیٹیوں کی وجہ سے بیوہ بیٹی کو لے جانا نہیں چاہتی تھی اب انہی بن بیاہی بیٹیوں کی وجہ سے اسے گھر لے جانا چاہتی تھی۔
ان سب گھمن گھیریوں میں واحد ایک دوست نازیہ زیدی ( شروتی شرما)اسکے ساتھ تھی اور ایسی لڑکی جسکا کوئی تصور نہیں کر سکتا۔ وہی گرل فرینڈ۔ پوری فلم میں واحد خالی ہاتھ عورت جو دل سے اس لڑکے کے جانے پر افسردہ تھی دکھی تھی مگر اسکے پاس اس دکھ کی کوئی عزت دار وجہ نہ تھی۔ نہ وہ اسکی بیوی تھی نہ کوئی اور محرم بس محبت تھی۔
پھر ہیروئن نے وہ فیصلہ کیا جو اسے کرنا چاہیئے تھا اس نے سب چھوڑ دیا۔سب کو چھوڑ دیا۔ اپنے بے حس جزبات سے عاری شوہر کی انشورنس کی سب رقم حوالے کی اپنے ساس سسر کے اور خود دوسرے شہر نوکری کرکے اپنی زندگی گزارنے کا سامان پیدا کرنے چلی آئی۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ اب سے وہ اپنے شوہر کی ذمہ داریاں نبھائے گی۔ یعنی اس کے ساس سسر کا خرچہ اٹھائے گی ۔ اور جب تک اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہوگی تب تک ساس سسر بھی ان پچاس لاکھ کے عوض اسکا خیال رکھ ہی لیں گے ہے نا؟
اس فلم میں ہیروئن مظلوم لگی یا بیوقوف؟ مظلوم تھی مگر بیوقوف نہیں تھی۔ ایسے شوہر جس سے سکھ ہی نہ ملا اسے اسکے پیسے کو استعمال کرنے کا دل ہی نہیں چاہا اسکا۔ بات دل کی ہی تو تھی نا؟
اصل میں بیوقوف اور مظلوم کون تھی؟ وہ گرل فرینڈ۔ اسکے پاس نہ رشتہ تھا نہ رشتے کی نسبت سے ملنے والا پیسہ البتہ وہ اس پوری فلم میں ان دونوں چیزوں کے بنا سچ مچ ایک انسان کے اس دنیا سے چلے جانے کی وجہ سے دکھی تھی۔افسردہ تھی مگر نہ اظہار کرنے کےکا اسے حق تھا نہ اس دکھ سے نکلنے کی وجہ۔
اور سب سے ذیادہ ظالم کون تھا؟ وہی جو مر گیا۔ جس نے ایک رشتہ بھی ذمہ داری سے نہ نبھایا۔ اپنے آپ پر بیجا ذمہ داریاں ڈالیں اپنے کام کرتے باپ کو کام سے روک کر اپنا محتاج کیا اپنے بھائی سے شفقت سے پیش نہ آیا اپنی گرل فرینڈ پر اپنے سے جزبے لٹا کر اپنی بیوی کو دو بول محبت کیلئے ترسایا اپنے آپ کو ضرورت بنا دیاسب کی۔ پھر جب سب نے ضرورت کے تحت ہی یاد کیا۔ ضرورت کے تحت ہی یاد رکھا۔ اور بس۔ ایک انسان کی بس اتنی ہی اوقات ہے نا تو کیا ایک انسان کو کچھ ایسے کام کرکے نہیں مرنا چاہیئے کہ کوئی بلا وجہ بلا ضرورت اسکے جانے پر صرف اسکی غیر موجودگی کا سوچ کر دکھی نہ سہی افسردہ ہی ہو سکے؟
تھوڑا سنجیدہ سنجیدہ سا لکھ ڈالا مگر ان غیر شرعی رشتوں نے شرعی رشتوں کی اساس ہی ختم کر دی ہے۔ ایک اچھا بوائے فرینڈ نہ ایک اچھا شوہر تھا نا بیٹا نہ بھائی، ایک اچھی گرل فرینڈ کو نہ بیوی کارتبہ مل سکا نہ ترکہ، ایک بے حد اچھی بیوی کو بیوہ بن کے دکھ تک نہ ہوسکا کیونکہ بات تو دل کی تھی جب دل ہی نا مانے تو۔۔
Desi Kimchi ratings: 4/5