کل اسٹرانگ وومین دوبونگ سون دیکھ رہی تھی میں۔ کل کیوں ۔۔ ایویں بس مجھے ہیونگ سک کا ڈرامہ دیکھنا تھا اسلیئے تو اس ڈرامے میں جب دوبونگ سون کی سہیلی پر قاتل حملہ کرتا ہے اور وہ اسپتال پہنچ جاتی ہے تو دوبونگ سون کی والدہ اسکی عیادت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ اسکی والدہ کو کہیں گی کہ پوپ الکوحل یعنی گوکی شراب بھیجیں تاکہ وہ جلدی ٹھیک ہو جائے۔
لڑکی گھن کھا کر کہتی ہے اسے پینے سے بہتر وہ سمجھتی ہے کہ درد سے مر جائے۔ تو دوبونگ کی والدہ اسے ڈانٹ کر کہتی ہیں تم گو کی شراب کو اتنا گھٹیا کیوں سمجھ رہی ہو۔
یہ ڈرامہ یہ منظر میں نے پہلے بھی دیکھاتھا مگر غور نہ کیا یہی سوچا کہ ایویں جیسے پوپ کیک مشہور ہے کونسا سچ مچ گو کا کیک ہوتا شکل بس گو جیسی ہوتی ویسے ہی کسی چیز کی شراب کو یہ نام دے رکھا ہوگا۔ پھر کل دیکھا یہ منظر تو ذہن میں آیا کہ لڑکی اگر گھن کھا رہی ہے تو شائد گو ہی کی شراب ہوگی مگر اتنے جانور الٹے سیدھے طریقے سے کھاتے ہیں تو چلو کسی متبرک جانور کا گو شراب بنانے کیلئے استعمال کر لیتے ہونگے۔ شومئی قسمت اپنا تجسس دور کرنے کی ٹھان لی اور یو ٹیوب کھول لیا۔
اور جناب پہلی ویڈیو ایک جاپانی نیوز ایجنسی کی ملی اور میں نے آگے پیچھے کرکے دیکھ لی۔ یقین کیجئے الٹی آتے آتے رہ گئ۔ ابکائیاں جانے کتنی لیں سو اگر تجسس دور کرنا ہے تو یوٹیوب خود دیکھ کر الٹی کر لو اگر میری بات پر یقین ہے تو چلو آگے پڑھ لو۔
جناب کوریائی ماہر طب باقائد گزرے زمانوں میں انسانی گو کو متبرک جان کر اس سے ادویات بناتے تھے گو کو جمع کرکے رکھتے تھے گو اور پیشاب قدرتی کھاد کے طور پر کھیتی باڑی میں استعمال کرتے تھے اور زخم کی صفائی کیلئے پیشاب کو مئوثر جانتے تھے۔ گو سے شراب بنانے کا طریقہ کچھ یوں تھا گو لیتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ بچوں کا جن کی عمر چار سے آٹھ تک ہو انکا گو لیں اسے توڑ کر پانی کے مرتبان وغیرہ میں جیسے شراب بناتے ویسے گھول کر رکھتے تھے ۔
جیسے شراب جتنی پرانی ہو اسے اتنا ذائقے دار سمجھا جاتا اس گو کی شراب کا بھی یہی سمجھا جاتا ہے ۔ گو کی شراب میں سے بو آتی ہے یا اسکا ذائقہ کیسا اسکو اسی پروگرام کی میزبان نے چکھا اور الٹیاں بھی کیں مگر طبیب صاحب بھنا گئے کہ ایسا کچھ نہیں بس چونکہ زہن میں بسا ہے کہ گو کی بدبو ہوتی ہے اور ذائقہ برا ہوگا اسلیئے ایسا ہوا۔
اس سے قبل میں نے ایک ڈاکومنٹری دیکھی تھی جس میں کافی بنانے کا طریقہ یہ تھا کہ ایک جانور وں کہ نسل جسکا نام میں بھول چکی ہوں انکو کافی کے بیج کھلائے جاتے تھے جو انکو ہضم نہیں ہو پاتے تھے تو انکے فضلے سے جو بیج ہضم ہو کر نکلتے تھے ان بیجوں کو چن کر اکٹھا کرکے سکھا کر پیسا جاتا اور اسکی کافی بنا کر پی جاتی تھی۔۔
دیگر میں حالیہ ایک اور حرکی تصویر دیکھی جس میں سے جو ہم روز مرہ استعمال کرتے اس چیز کا ذکر میرے رونگھٹے کھڑے کر گیا وہ تھا لال کھانے کا رنگ۔ تمام لال کھانے کے رنگ اور لال رنگ کہ اشیا ء جن میں لپ اسٹک بھی شامل ہیں یہ رنگ اخذ کرنے کیلئے بیٹلز یعنی چھوٹے لال کیڑے کو پیس کر ان سے اخذ کیا جاتا ہے۔ اس فارمولے کو کھانے کا لال رنگ بنانے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔