The black Knight
کیا آپ نے کبھی سوچا کیسا ہوتا ہوگا ایک پر امن ملک میں رہنا۔ جہاں نا کوئی سیاسی دنگے نا لسانی فرقہ وارانہ فساد، نا دہشت گردی نا قتل و غارت۔ سب امن چین سے رہتے ہوں ملک میں عدل ہو غربت ہو مگر سب کام کرکے اپنا اپنا خرچہ اٹھا لیتے ہوں۔ موسم سرد و خنک ہوتا ہو مگر گیس بجلی پانی ہر سہولت ملتئ ہو۔ جنت جنت سا لگتا ہوگا نا ایسے ملک میں رہنا۔ کیا آپکی بھی خواہش ہے ایسی جگہ رہنے کی ؟ ہاں ہے نا۔ مگر کیا آپ جانتے ہیں ایسے ملک میں رہنے والوں کا خواب ہے ہمارے ملک میں رہنا۔ کیا مزاق لگ رہا؟ یقین جانیئے سچ کہہ رہی۔ کیوں کہا ایسا؟ بتاتی ہوں۔
نیٹ فلیکس پر آئی نئی سیریز The black knight. کہانی ہے کوریا کی آج سے پچاس سال بعد کوئی شہاب ثاقب گرا ایک فیصد آبادی بچی سب مر گئے فضا میں آلودگی چھا گئ ۔ اب جو زندہ ہیں انکو دی جاتی ہے آکسیجن کے سیلنڈرز کے ذریعے جینے کی سہولت۔ ایک ہائوسنگ سوسائٹئ بنائی ہے ایک امیر طبقے نے جس میں جو لوگ رہتے انکو سب زندگی کی سہولیات دی جاتی ہیں۔ انکے سوا مہاجر ہیں جنکو اتنی بڑی تعداد میں سب سہولیات دینا ممکن نہیں سو شاطر امیرانسان دشمن بھائی جان انکو کسی طور مروادینا چاہتے ہیں۔ کیسے؟ بھئ جن گھروں کو آکسیجن دی جاتی ہے بڑے نظام سے دی جاتی ہے کیو آر کوڈ اسکین کرکے مخصوص ڈیلیوری مین جاتے ہیں چار بوتلیں دے آتے ہیں آکسیجن کی۔ جن سے انکا گھر چلتا ہے۔ یہ ڈیلیوری مین جان جوکھوں میں ڈال کر یہ کام کرتے ہیں۔ انکے پاس ٹرک ہوتا ہے اور اسلحہ۔ بیچ میں کہیں مہاجرین حملہ کرکے ٹرک لوٹ سکتے تو انکو مارنے کیلیے اسلحہ ہے اور ٹرک میں آکسیجن سلنڈرز۔بڑی کوئی مشکل زندگی ہے۔ایک ٹرک ڈرائیور بہت مشہور ہے فائیو ڈیش ایٹ ۔ یہ بنا ہے کم ووبن۔اور دوسرا ہے منا سا ہیرو جو بننا چاہتا ہے ڈیلیوری مین۔ رہتا ہے سائیڈ ہیروئن اور اپنی ہیروئن کے ساتھ گھر میں بند کیونکہ وہ مہاجر ہے اسے یہاں قانونی طور پر رہنے کی اجازت نہیں سائیڈ ہیروئن نےترس کھا کر اسے گھر میں رکھا مگر یہ فتنہ گھر سے نکل جاتا ہے اور گا ہے بگا ہے ٹکراتا ہے کم ووبن سے۔
کہانی سے سبق ملتے ہیں۔
دہشت گردی سے پاک ممالک کیلئے۔
بھئ دہشت گردی کروائو کچھ نہیں تو پاکستان منتقل ہو جائو ہمارے پاس بنانے کو کچھ رہا نہیں فرضی کہانیوں میں خود کش حملہ آور ڈالنے پڑ رہے ہیں۔ ویسے جتنا شوق ہو رہا کوریا والوں کو بد امنی میں رہنے کا ہمیں خود ان سے اپنی آبادی بدل لینی چاہیئے انکی مہم جوئی ختم ہو او رہماری عوام کو چار دن سکھ کے ملیں۔
ولن ابا کیلئے۔
بیٹا کمینہ ہو پورا آپ پر جائے تو بھی یاد رکھیے اگلی نسل آپ سے دس ہاتھ آگے ہی ہوتی ہے ۔ یہ ابا نو سو چوہے کھا کر حج کا پروگرام بنا رہے تھے کہ بیٹے نے سب کام چوپٹ کر دیئے۔ انکو سبق ملتا ہے نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی محاورہ ہے اسے حقیقی زندگی میں نہ تلاش کیجئے۔
سائیڈ ہیروئن کیلئے۔
گھر میں اکیلی ہو تیس مار خان قسم کا بوائے فرینڈ ہو تو اسے کمرے میں بند مت کرو ڈاکو آجائیں تو کم از کم بچا نے کی کوشش ہی کر سکتا ہے۔ موصوفہ کو بچانے کی کوشش میں جتنا یہ خوار ہوا اسکو وہیں کتے کی موت مرجانا چاہئے تھا۔
سائیڈ ہیروئن نمبر دو
یہ ہیروئن ہی ہے۔ خیر موصوفہ نے پکی چھلانگ ماری ہے ہائی اسکول سے سیدھا میجر جنرل کی۔ ویسے اسکو سبق ملتا ہے بال بڑھا کر رکھے چھوٹی لگتی ہے۔
ولنوں کیلئے۔
آپکو دیکھ کر طالبان یاد آگئے۔ کوریا کو تو پچاس سال آگے والی فرضی کہانی میں آپکو دریافت کرنا پڑا مگر ہم نے آنکھوں دیکھے سالوں بھگتے ہیں اور ابھئ بھی بھگت رہے
قسم سے ہمارے سب خوف نکالنے کا شکریہ۔ مر جانے کا ہی خوف ہوتا ہے نا اب چاہے پاکستان پر ذومبی آئیں خلائی مخلوق کوئی شہاب ثاقب آگرے ہم پھر جی جائیں گے شکریہ طالبان۔
ولن انکل کیلئے۔
آپ کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہوں تو اپنے گرد سب بچے مار دیں ۔ اغوا کروادیں اور آخری منظر تک مرتے مر جائیں ناظرین کو پتہ نہ لگنے دیں کہ بیماری تھی کیا۔ ایسی کہانیاں لکھنے میں لکھاریوں کے پاس کرنے کو وافر کام ہوتا ہے سو کون یہ چھوٹی موٹی تفصیلات لکھے۔ جس طرح چاند توڑ کر اسکی راجدھانی تباہ کی مجھے بھی اچھی امید پیدا ہوئی ہے کہ مشہور پراپرٹی ٹائیکون کا بھی انشااللہ ایسا ہی انجام ہوگا سب تباہ ہوگا اسکا۔
ہیرو کیلئے۔
سر منڈواتے ہی اولے پڑے سنا تھا مگر یہاں ہیرو صاحب جب تک انجان رہے کہ انکو کچھ نہیں ہو سکتا ایک سے ایک مشکل میں پڑے کتا خواری کاٹی جہاں چین کی صورت ہوئئ وہاں بچانے فوجیں پہنچیں انہیں۔ یہاں ہیرو کو یہ سبق ملتا ہے بھئ ناقابل موت زندگی پائو اور مزے کرو۔
ذاتی رائے۔
بھئ دیکھو یہ ڈرامہ چھوٹا سا ہے چھے اقساط پر مشتمل مگر اگر اسکو پاکستانی سمجھ کر دیکھو گے تو خود پر فخر ہوگا۔ مطلب بس ایک پراپرٹی ٹائیکون اسکا ایک منصوبہ جسے ناکام کرنا وہی دو چار خود کش حملے۔ہم عام پاکستانیوں کی عام زندگی جس میں سانس بس مفت مل رہئ ہے ان سے کہیں ذیادہ دشوار ہے ۔یہاں ایک ملک دشمن نہیں ، یہاں ایک کھائو پیر ظالم انسان نہیں یہاں ماشا اللہ سے ہر ادارے سے ایسے گل بوٹے اگتے ہیں جو ہر طرح کا عذاب ہم پر مسلط کر چکے ہیں۔ او رہم ڈھیٹ جیئے جا رہے ہیں۔سلام ہے پاکستانیوں ہم پر۔ ڈرامے کا انجام خوشگوار ہے سو امید رکھو پچاس سال بعد جب دنیا میں ذومبی، خلائی مخلوق ، شہاب ثاقب تباہیاں مچا رہے ہوں گے ہم ہوں گے ہی نہیں ہم نے مندرجہ بالا مسائل کے بعد بچنا تھوڑی ہے۔۔او رپھر بھی تم مجھ جیسے ڈھیٹ بچ بھی گئے تو ایسا کوئی عذاب آکر پوچھا کرے گا بھائی پاکستانی ہو؟ ہم کیا پریشان کریں تم کو جائو کھیلو جا کر ہم باقیوں کو کھا پی کر آتے ہیں۔
اب تو پکا دل کر رہا کوریا جانے کا ایک آدھ خود کش حملہ بنتا ہے ان پر بڑا شوق ہے انکو دہشت گردی دیکھنےکا۔