Desi Kimchi |desi kdrama fans|

The Guest kdrama urdu review

پارک اللللل دوووووو
دنیا کا پہلا ایکشن ہاررر تھرلر دیکھا میں نے جس میں ہیرو ہیروئن اور سائیڈ ہیرو کا فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا۔ ہیرو میں جذباتی احمق لڑکی ، ہیروئن میں بہادر غصہ ور لڑکا اور سائیڈ ہیرو میں قربانی محبت اور نیکی کا عظمت سلطان نظر آرہا تھا کہ جب چن چن کر انکے آس پاس گرد و نواح کے سب لوگ دوست رشتے دار دشمنان احباب سب کا قیمہ بنتا گیا تو آخری قسط تک دل کرنے لگا ایک نعرہ پارک ال دو کا میں خود بھی لگا ئوں اور ان تینوں کا قصہ تمام کردوں۔
اف یہ کہانی ہے دی گیسٹ کی۔ نیٹ فلیکس پر بار بار سامنے آئی حتی المقدور ٹالی مگر ہونی کو کون ٹال سکتا دیکھنے بیٹھ گئ۔ حسب عادت تین دن میں عین رات کے دو بجے والی میراتھون میں ختم کی یہ سیریز اورآخری قسط تک خود میں پارک ال دو جاگتا محسوس کیا کیونکہ اتنی شدید خواہش پیدا ہوگئ تھی کہ ڈرامے میں گھس کر لی کل ینگ ، فادر چھوئی یون اور لی پھیونگا کی ایک ایک آنکھ میں سلاخ گھسیڑ کر انکو سمندر برد کر ہی دوں۔ خاص کر آخری لڑائی میں جب تینوں ہی سمندر میں گھسے تھے۔
کہانی ہے ایک معصوم بدروح کی جس کی ننھی سی خواہش ہے کہ وہ کسی ایسے انسان میں گھس کر رہے جو خفیہ صلاحیتیوں کا مالک ہو اور چن چن کر اسکے گرد لوگوں میں چھوٹی چھوٹی بدروحیں بلوا کر ان سے بھی قتل و غارت کروائے اور آخر میں خودکشی کروائے بس۔ اور اس بدروح کا نام ہے پارک ال دو۔ جس کے دشمن یہ تینوں فارغ انسان لگے رہے اسکو ختم کرنے ۔۔ مطلب کیا بگاڑا تھا بس ان تینوں کے خاندان کو ختم کردیا تھا بس۔اب اسکا کوئی بدلہ تھوڑی لینے لگ جاتا۔ کہانی میں کردار بہت ہیں اتنے لوگ مرے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کوریا کے نواحی گائوں اجڑ چکے ہیں اور اب وہاں آرام سے ڈی ایچ اے بن سکتا ہے۔
کہانی سے اسباق ملتے ہیں۔
چھوٹے موٹے کرداروں کیلئے۔
بھئی اپنے اندر غصہ نفرت نہ پنپنے دو۔جس پر غصہ آئے گا اسے مار کر اپنی آنکھ پھوڑ کر خودکشی کرنی پڑے گی۔ چونکہ یہ کہانی تھی تو تم سب غصہ نفرت پالو بھئ ان کرداروں سے سبق نہ لینا کوئی ۔۔ انہوں نے اچھا سبق نہیں دیا۔۔
کہانی کے ولنوں کیلئے
کہانی کے دو بڑے برے ترین کردار بے چارے ایسے پھپھسے حالات و واقعات کا شکار ہوئے کہ ایک وقت آیا کہ دل کیا اس کہانی کار آنکھ نہیں ناک پھوڑ دوں۔ ان دونوں بے چارے ولنوں کے ساتھ اتنی ذیادتی کی کہ کیا بتائوں آخر تک دونوں پر ہی ترس آنے لگا۔ ذرا سا اقتدار کی ہوس ہی تو تھی بے چاروں کو۔
بدھ متی پیر کیلیئے۔
یہ موصوف اتارا کیا کرتے تھے سب کا کیا سوائے اپنے۔جب آدھی ڈرامے کی کاسٹ کو پتہ لگ گیا پارک ال دو کون ہے تب یہ تن و تنہا رات اندھیرے پتہ لگانے پہنچے انکی ساری پیری فقیری پارک ال دو نے سمندر کے راستے نکال دی۔ اندھے کے ہاتھ بٹیر۔ ان کیلئے ہی بنایا ہوگا محاورہ اردودانوں نے۔ بس انکے ہاتھ بٹیر کی جگہ لاش لگی۔ مگر کس کی یہ راز اپنے ساتھ ہی لے گئے
ہاپھیونگ کیلئے۔
ان بھیا کو آخری قسط تک یہ ہی پتہ نہ چل سکا کہ یہ کون ہیں ان میں کون ہے کون نہیں آخر میں تو دعوت دیتے پھرے آجائو میرا جسم آپکا ہوا۔ واہ۔۔ مطلب اس بندے کا جسم نہ ہوا روحوں کی مشین ہوگیا تم بھی آجائو تم بھی آجائو دو تین ہم روحیں مل جل کے رہ لیں گے۔ مطلب دنیا میں سارے پیروں فقیروں کا ڈبہ گول تعویز نہ ڈھونڈیں ہاپھیونگ ڈھونڈ لیں۔ کارآمد لڑکا ہے
فادر چھوئی کیلئے۔
ایک تو بندہ اتنا وجیہہ اوپر سے دنیا تیاگ دی احمق تھوڑا سا خاندان کے دکھوں کا غم ہلکا ہونے دیتا تو آرام سے سجیلی بہادر، نڈر ، شریف اور مردمار قسم کی لڑکی ملتی شادی کرتا اور دو بچے ہوتے اسکے ایک نہایت شریف شرمیلا بیٹا ایک بہادر کھڑپینچ بیٹی سکھ کی گزرتی مگریہ موصوف تائب ہوگئے۔ اوپر سے مرنے کو تیار۔ مطلب دنیا میں ہر۔کوئی چاہے کسی انسان سے لڑے یا جنات سے زندگی بچانے کو لڑتا یہ زندگی گنوانے کو تیار۔ ویسے وجہ۔ظاہر تھی۔ جب دنیا چھوڑی تو دوست اور سہیلی دونوں مل گئے تو دنیا چھوڑنے کا ہی دل کرے گا نا چھوئی کا بے چارہ۔۔
کل ینگ کیلئے۔
جیسی ماں ویسی بیٹی۔ سکھ سے زندگی گزرتی ماں بیٹی کی مگر اماں نے آگ میں کودنا پسند کیا بیٹی نےاماں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زندگئ میں جہنم چن لیا۔ بے چاری شکل صحت اور نک چڑھے پن کی وجہ سے اکیلی تھی اور مل گئے دو دو وجیہہ و شکیل لڑکے۔ مگر اپنی جملہ خصوصیات کی بنا پر ان دو لڑکوں کو تو چھوڑوبھوت پارک ال دو تک کو نا پٹا پائی۔ جن تک عاشق نہ ہوسکا اس مردمار پر۔ ایک لڑکا تو خاندانی طور پر وراثتی روحانی خوبیوں کا مالک تھا دوسرا پادری تھا یہ موصوفہ میں ایسا کیا گن تھا کہ ڈرامے کے ایک ایک کردار پر بھوت آئے سوائے اسکے وجہ؟؟؟؟
پارک ال دو کیلئے۔
سچی پورا ڈرامہ تمہیں اتنی بڑی توپ بنا کر پیش کیا اور اتنے پھسپھسے نکلے تم کہ آخر میں تو ترس ہی آگیا۔ بے چارہ بیس بیس سال انتظار میں رہا کہ کسی پر حاوی ہو اور پھر بھی اسکے ارادے ناکام رہے۔ اگلی بار کوئی نئی ترکیب آزمانا بھئ۔ ایک آنکھ پھوڑنا سچی ڈرانے سے ذیادہ الٹی دلاتا رہا۔ ویسے پارک ال دو تھا بونگا ہی۔ نا صحت کام آئی نا دولت نا اولاد۔ نا ہی مقصد۔ بھئ کرنا کیا چاہ رہے تھے۔ ؟
ذاتی رائے۔
پہلا ڈرامہ دیکھا جس میں اوپا نے رکھ رکھ کے چپیڑیں لگائیں ہیروئن کو دل باغ باغ ہوگیا۔ کے ڈراموں میں گھریلو تشدد کی شدید کمی محسوس ہوتی تھی دور ہوئی مگر ان چپیڑوں کا انتظار بہت کرنا پڑے گا۔ پورے ڈرامے میں پارک ال دو اتنا پکارا گیا کہ رات کو اسے دیکھتے ہوئے لگا کہ پاکستان بھی آگیا ہے۔ شیطان کو شیطان دکھانے کیلئےاتنی کثرت سے مقدس کتب مقدس صلیب کی بے حرمتی کی گئ ہے کفریہ کلمات کہے گئے ہیں کہ شیطان خاصا خوش ہوا ہوگا۔ تاہم جب اتارا کرتے ہوئے ہر چیز ہیچ لگنے لگتی تھی تو دل کرتا تھا آیت الکرسی پڑھ کے پھونک دوں۔
اس ڈرامے کو دیکھ کر لگے گا دنیا میں محبت پیار سکون خوشی امن سب عنقا ہوگیا ہے۔ دو ایک بار لگا کہ شائد فادر کو چرچ والے نکال دیں تو یا ہاپھیونگ کو فون پر کل ینگ کی آواز سن سن کے شائد محبت ہو جائے مگر نہ جی نام ہی ایسا تھا بی بی کا۔کل ینگ۔ کل سارنگ رکھ لیتے نام اسکا۔ یہ۔محبت مار قسم کی لڑکی تھی۔ اس سے سچی محبت بس اسکے ساتھی جاسوس کو ہی ہوئی اسکے بھی بیوی بچے اپنا خاندان تھا سو یہ بھی ناکام ہی سمجھو۔ خیر ڈرائونے ڈرامے پسند ہیں تو دیکھو۔ کوئی کام نہیں وقت ضائع کرنا تو دیکھ لو۔ خاص کر۔رات کے وقت دیکھنا۔خوف آئے نہ آئے الٹی تو آئے گی ہی

Exit mobile version