میرا کبھی کبھی دل کرتا ہے میں کوریا جائوں وہاں اسکرپٹ پر کام کیسے ہوتا ہے کون لکھتا اسکے پیچھے کونسے محرک ہوتے ہیں جو کسی لکھاری کو روانی سے قلم چلانے پر مجبور کر ڈالتے ہیں وہاں پیش کار کس قسم کے ہوتے ہیں کہ معمولی سی معمولی منظر کشی کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں وہاں کے اداکاروں کو آخر ایسی کیا گیدڑ سنگھی سنگھائی جاتی ہے کہ وہ اسکرپٹ کے مشکل سے مشکل ترین مکالمے نا صرف یاد کرتے ہیں بلکہ ان میں اپنی اداکاری سے ایسے رنگ بھرتے ہیں کہ اداکار کہیں پیچھے رہ جاتا ہے بس وہی کردار ذہن پر نقش ہوجاتا ہے سب سے بڑھ کر وہاں کے سنگھار فنکار ایسا کیا سوچتے ہیں کہ ہر کردار کاسنگھار اسکے کردار کے مطابق مختلف اور انوکھا نظر آتا ہے۔
ہمارے یہاں سینماٹوگرافی نام کی کوئی چیز تو جیسے موجود ہے ہی نہیں۔ چار گھر ہیں پانچ کہانیاں اور سب کے سب اداکار نہ صرف مکالمے رٹنے کی بجائے اپنی مرضی کی آسان اردو کے نام پر اردو کی ماں بہن ایک کرتے ہیں بلکہ اپنے میک اپ اور بالوں کے انداز کو بھی کردار کے لحاظ سے بدلنے کو تیار نہیں ہوتے۔ پھر حیران ہوتے ہیں کہ ہمارے اداکاروں کو اس طرح پذیرائی کیوں نہیں ملتی جتنی غیر ملکی اداکاروں کو۔
یہ سب تمہید ہے نئے ڈرامے Death games پر میرے تبصرے کی۔ جتنی اسکی کہانی انوکھی ہے اتنے ہی درجن بھر نت نئے کردار ہیں جنہیں کوریا کے چوٹی کے اداکاروں نے اس بات پر توجہ کیئے بنا کہ انکے کردار کو اسکرین پر کتنے منٹ مل رہےہیں مختصر کردار میں بھی جان لڑا کر اپنی اداکاری سے رنگ بھرا یے۔ یہ ڈرامہ مجھے کافی عرصے یاد رہنے والا ہے۔ کہانی جتنی دلچسپ ہے اتنا ہی دلچسپ ڈھیر سارے پسندیدہ چہروں کو ایک ہی ڈرامے میں اکٹھا دیکھنا ہے۔
کہانی ہےایک تیس سال کے ناکام نامراد لڑکے کی جس کو مستقل نوکری میسر نہیں اپنا خرچہ نہیں اٹھا سکتا کجا اپنی ماں اور گرل فرینڈ کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزارنے کیلئے ایک گھر لے سکے۔ اسکی جمع پونجی لٹ چکی ہے۔ اور وہ اپنی گرل فرینڈ سے سب ناطے توڑ آیا ہے کہ اسے لگتا اسکی زندگی اب نہیں بدل سکتی سو مایوس ہو کر اس نے اپنی عمارت کی چھت سے کود کر خودکشی کر لی۔
مگر نہیں۔ کہانی تو اس سے قبل جب وہ پہلا جاب انٹرویو دینے جا رہا تھا وہاں سے شروع ہوئی۔ ایک مایوس ادھیڑ عمر انسان اسکے سامنے ایک چلتی سڑک کے بیچوں بیچ آکھڑا ہوا۔ ایک تیز رفتار گاڑی سے ٹکرا کر اسکے سامنے زخمئ ترین حالت آپڑا۔ یہ خوفزدہ ہوا گھبرایا ریسکیو کوفون ملایا مگر اس نے اسکا بازو تھام کر خون آلود نگاہوں سے تڑپ کر اسے کچھ کہنا چاہا اور اس کوشش میں ناکام ہو کر اسکے بازوئوں میں جان دے دی۔
وہ کیا کہنا چاہتا تھا؟ کیوں کہنا چاہتا تھا یہ آخری قسط تک راز رہے گا۔ یہ کوریا کے ان ڈراموں میں سے ایک ہے جس میں آخری قسط تک آپ انجام کیا ہوگا نہیں اندازہ لگا پائیں گے۔
خیر مرنے کے بعد اسکی ملاقات ہوئی موت سے جو اس بات پر شدید خفا ہے کہ اس نے اپنی موت کو خود کیوں گلےلگایا؟ اپنا وقت پورا ہونے کا انتظار کیوں نہیں کیا۔ سزا کے طور پر اسے دوبارہ دنیا میں 12 مرتبہ بھیجا جانا تھا۔ ان بارہ دفعہ میں اگر وہ موت سے بچ گیا ، خود کشی نہ کی تو جس جسم میں وہ مکمل زندگی گزار لے لگا وہی اسکا ہو جائے گا۔لیکن اگر وہ 12 کی 12 دفعہ مر گیا تو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ہر زندگی پر اسے اس زندگی کی گزشتہ یادیں آگھیرتیں اور وہ جی اٹھتا ایک نئی زندگی۔
کہانی اب یہاں سے دلچسپ موڑ لیتی ہے۔پارک سودام ہے موت۔ پارک سودام اسکے خودکشی کرنے کے فیصلے کے ساتھ ایک اور بڑا گناہ کر دینے کا انکشاف کرکے اسے بتاتی ہے کہ اب سزا کے طور پر اسے 12 دفعہ دنیا میں بھیجا جائے گا اور بارہ دفعہ موت کا ذائقہ چکھے گا۔اگر کسی ایک دفعہ بھی موت سے بچ گیا تو جس جسم میں ہوگا اسی میں اپنی بقیہ زندگی گزار لے گا۔ لیکن اگر کبھی خودکشی کی یا کسی کو قتل کیا تو سزا دگنی ہوجائے گی۔ کسی دفعہ بھی نہ بچ پایا تو سیدھا جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اب یہ ہردفعہ نئے جسم میں دنیا میں آتا ہے لیکن موت اتنا اچانک آتی ہے کہ اسے بچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کبھی امیر کبیر پیسے والے آدمی کے جسم میں آجاتا ہے کبھی ایک اسکائی ڈائور کے اندر، کبھی ایک غنڈے بدمعاش کے،کبھی چند ماہ کے بچے میں ، کبھی ایک اسکول کے تشدد کا شکار چھوٹے سے ہائی اسکولر میں کبھی جیل میں بند ایک کم عمر مجرم کے طو رپر جاگتا ہے، کبھی ایک خوش شکل ماڈل کے طور پر۔ مگر ہر بار ایک دردناک موت منتظر ہے لیکن ہر موت کے بعد اس پر زندگی کا نیا معنی سمجھ آتا ہے۔اس کو خودکشی نہیں کرنی ہر بار لیکن ہر دفعہ خودکشی کی حد تک بری زندگی ملتی ہے اور آخری دفعہ اتنا برا انکشاف ہوا کہ فیصلہ کرتا ہے کہ اب جائے گا تو قتل کرکے واپس آئے گا۔
لیکن اس بار وہ اٹھا ہے ایک قاتل کے روپ میں، مگر کیا وہ قتل کر پائے گا؟ شائد لیکن اس بار بھی موت منتظر تھی اسکی، اسکو ایک اور موقع ملا پولیس والے کی زندگی یہ اچھا موقع تھا مگر یہ بھئ ضائع ہوا وہ ایک بے گھر انسان بنا پھر ایک اور مایوس انسان لیکن سب سے آخری موقع اسے جو زندگی جینے کا ملاوہ اتنا غیر متوقع تھا کہ کہانی کے تانے بانے پر میں عش عش کر اٹھی۔ کیا۔خوبصورت موڑ تھا اور آخر میں جب ان تمام مختلف زندگیوں کو جی چکنے کے بعد اسکو بس ایک خواہش تھی کہ معافی مل جائے اور بس وہی ایک زندگی واپس مل جائے جس سے تنگ آکر اس نے خود کشی کی بس یہی اس کہانی کا اصل سبق تھا۔ بچپن میں کہانی سنتے تھے کہ ساری دنیا کے لوگوں کے دکھ ایک جگہ ڈال دیئے جائیں تو سب اپنے اپنے پہ دکھ واپس اٹھا لینا چاہیں گے کیونکہ انکو جو سہنے کی قوت ہے وہ دوسرے کی زندگی کے دکھوں کا عشر عشیر بھی سہنے کے قابل نہیں۔ بہت خوبصورت مو ضوع بہترین فلمسازی بہترین اداکار یہ ڈرامہ ہر کسی کو دیکھنا چاہیئے تاکہ زندگی سے جو شکوے ہمیں روز ہوتے ہیں ان شکوئوں کے بغیر زندگی کتنی خوبصورت اور جینے کے قابل تحفہ ہے۔ اللہ ہم سب کو مایوسی سے بچائے آمین۔
Desi Kimcho Ratings: 100/5
بہترین ڈرامہ ہے اس سال کا یقین کیجئے۔