Srikanth
بائو پک یعنی اصل زندگی کے کسی غیر معمولی انسان کی زندگی پر مبنی فلم عمومااسکی انتھک محنت کٹھنایوں کے بیان پر مبنی بیزارکن بھی ہوتی ہے لیکن میں نے سری کانت دیکھی۔ اور یہ سچ مچ مزے کی لگی۔ یہ راج کمار رائو کو اتنی انوکھی فلمیں کیسے مل جاتی ہیں۔ سچئ بات یہ نبھاتا بھی اتنا اچھا ہے اپنے کردار کو کہ اسے ایک سے ایک انوکھا کردار ملتے رہنا بھی چاہیئے۔
کہانی ہے ایک پیدائشی نابینا لڑکے کی جو ایک دور دراز گائوں میں غریب والدین کے گھر پیدا ہوا۔ جہالت اتنی تھی کہ سب گائوں والوں نے مشورہ دیا کہ اسے بھگوان کو واپس کردو۔ باپ زندہ دفنانے ہی والا تھا کہ ماں کہیں سے آگئ اتفاق سے اور رو دھو کر بچا لیا۔ پورا گائوں اس بچے کا مزاق اڑاتا ہے برا سلوک کرتا ہے لیکن یہ غیر معمولی طور پر ذہین ہے۔ کوئی مشورہ دیتا ہے دوسرے شہر میں نابینا بچوں کیلئے کوئی خیراتی ادارہ ہے جو انہیں پڑھاتا لکھاتا ہے اور رہائش بھی فراہم کرتا ہے۔ والدین اسکے اچھے مستقبل کی خاطر اسے بھجوا دیتے ہیں۔وہاں ملتی ہیں اسے ایک عدد استانی صاحبہ جو نامعلوم وجوہ کی بناپر درجنوں بچوں میں بس اس سے محبت کرتی ہیں اور آخری منظر تک کرتی رہیں گی۔ اسکی زندگی میں اتار چڑھائو آتے ہیں بھارت میں نابینا بچے سائنس نہیں پڑھ سکتے یہ باقائدہ کورٹ کیس کے ذریعے قانون بنواتا ہے پھر اعلی تعلیم باہر جا کر حاصل کرتا ہے ۔ اسکی کامیابیاں دیکھ کر ایک لڑکی کو بھی اس سے محبت ہوجاتئ ہے۔ یہاں یہ لڑکی اکساتی ہے کہ واپس اپنے ملک آکر اپنے دیس کی خدمت کرو۔ یہ واپس آتا ہے اور ایک صنعت لگاتا ہے جس میں نابینا افراد کو ترجیحی طور پر روزگا رفراہم کیا جاتا ہے یہ کامیاب انجینئر ہے لیکن اس تمام کشمکش میں وہ ایک چیز بھول گیا ہے۔ دوسروں کا احسان ماننا۔ ہر موقع پر جہاں جہاں اسے مدد کی ضرورت پڑی اسکو اچھے لوگ ملے جنہوں نے اسے سہارا دیا لیکن مستقل کی لوگوں کی ہمدردی اور ترس اس میں کڑواہٹ بھر گئ ہے۔ یہ جہاں پوری فلم میں ایک محنتی قابل اور خو دمختار بنتادکھائی دیتا ہے وہاں اس میں بد مزاجی، خود سری، اور خودغرضی بھی آچکی ہے۔ یہ ان تمام لوگوں سے جنہوں نے وقتا فوقتا اسکا ہاتھ تھاما سہارا دیا بے حد سخت ہوچکا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ جب ہم محنت کر رہے ہوتے ہیں تب سوچتے ہیں ہمارے پاس قسمت نہیں جب قسمت یاوری کر جاتی ہے تو سوچتے ہیں محنت کا صلہ ہے۔ یہ کلیہ ہے اس فلم کا۔
پوری فلم سرکانت نامی شخص کی اصل زندگی کے اتار چڑھائو پر مبنی ہے۔ ایک کے بعد ایک اسکے سامنے مشکلیں آتی ہیں وہ رکتا نہیں ڈرتا نہیں وہ بے حد ذہین ہے لیکن اس سب کے ساتھ اسکو مددگار لوگ بھی ملےجنہوں نے اسکا ساتھ دیا۔ کم سہی مگر یہ لوگ تھے۔ اور ایسے لوگ ہی ہیں جنکی وجہ سے آج تک دنیا قائم ہے۔ اگر ہم سب ایسے لوگ بنیں تو سری کانت جیسے ہمارےاردگرد بھرے پڑے ہیں۔
رہی بات فلم کی تو راج کمار رائو نے بہترین اداکاری کی ہے مجھے راج کمار رائو نہیں سری کانت نظر آیا۔ فلم کا اسکرپٹ دلچسپ ہے۔ ایسی کہانی جس میں یکے بعد دیگرے سب ہوتا چلا جانا ہے اس میں غیر معمولی موڑ نہیں آنے ایسی فلم کا دلچسپ اسکرپٹ لکھنا بے حد مشکل کام ہے جس نے بھی کیا ہے اس نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ ہیرو کو انسان ہی بنا کر پیش کیا ہے جو لڑتا غصہ کرتا ہے کبھی مایوس بھی ہوتا وہی کڑواہٹ جو اسے لوگوں نے دی ہے اسے لوگوں پر اتارتا بھی ہے۔ فلم میں سینماٹوگرافی بہترین ہے۔ ایک موقع پر لگتا ہے کہ بس اب سب ہوگیا فلم کو ختم ہوجانا چاہیئے وہاں اس محنتی لڑکے کی شخصیت میں آجانے والی کمی کجی کی بھی بہت خوبصورتی سے نشاندہی کی اور اس نے آخر میں جانا کہ وہ در اصل کچھ بھی نہیں مگر سب کچھ ملا ہے اسے یہی کافی ہے۔
ایک سبق ہم سب کیلئے بھی۔ یہ جو اٹھتے بیٹھتے ہم سو با راپنی قسمت کو برا کہہ ڈالتے اپنی ناکامیوں پر دل برداشتہ ہو کر خود کو کوستے ایک بار سوچیئے
ایک کامیاب پیسے والا انسان جسکو خوبصورت بیوی ملی ہو اسے دنیا گھومنے کا موقع ملا ہو وہ سب کچھ اسکی دسترس میں ہو جو ابھی آپ خواہش کررہے ہوں لیکن وہ دیکھ نہ سکتا ہو اس انسان سے بھی اگر پوچھا جائے کہ یہ سب اسے ملے یا بس دو آنکھیں۔ تو جانتے ہیں وہ کیا چنے گا؟
وہ جو اس وقت آپکے پاس ہیں ۔
دو آنکھیں۔
اس ادراک نے مجھے فلم دیکھتے رلایا ہے۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے ہماری بینائی تیز کرے آمین۔