concerete utopia
یہ فلم میں نے دیکھی۔ اور جتنی بھی آپ سوچ لیں اس سے ذیادہ اچھی فلمائی گئ فلم ہے۔ اتنی اچھی کہ فلم دیکھنے کے بعد فوری طور پر میں تبصرہ لکھ بھی نہ سکی۔ مجھ پر اثر رہا دو دن۔ اور میرا دل یقین مانیئے بوجھل رہا۔ کیوں؟ بتاتی ہوں۔کہانی ہے ایک زلزلے کے بعد تباہ شدہ شہر کی۔ زلزلہ آیا اسکے بعد طوفانی بگولا جس نے پورے شہر کو برباد کردیا سب عمارتیں ڈھے گئیں موسم ایکدم سرد ترین ہو گیا اور امدادی کاروائی کون کرتا؟ جب سب ایک ہی آفت و مصیبت میں مبتلا ہیں۔ بس ایک اپارٹمنٹ کمپلیکس ثابت سالم رہا جس میں دوسرے تباہ حال کمپلیکس کے لوگ بھی پناہ لینے آگئے۔ اب شروع ہوتا ہے لوگوں کی لالچ تنگ دلی کم ظرفی کا امتحان۔ ہفتہ ہو گزرا ہے۔ اس عمارت میں جو خاندان رہتے تھے انکا اور دوسری عمارت سے جو بڑی تعداد میں لوگ آبسے ہیں انکا مقابلہ۔ مقابلہ ہے انسانیت کا خدا خوفی کا تنگ دلی کا بربریت کا لالچ کا۔ جی ہاں کیونکہ سب شہر تباہ ہو چکا ہے تو انکے پاس خوراک اور دیگر ضروریات زندگی کی محدود رسد موجود یے۔ جو اگر اس عمارت کے لوگوں کیلئے کافی ہے تو اس عمارت میں جو ہنگامی حالات کا فائدہ اٹھا کر گھس بیٹھیئے جو آ بسے ہیں اس رسد میں انکو کیوں حصہ دیا جائے؟عمارت کے مکین ایک ملاقات طے کرتے ہیں جس میں صرف اسی عمارت میں رہنے والے لوگوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے ایک منصوبہ بنایا جاتا ہے بہانے سے اس عمارت میں باہر کی کسی عمارت سے آنے والے پناہ گزینوں کو عمارت سے باہر نکال کر دروازے بند کرلینے ہیں۔ باہر سردی ہے برفباری اور کبھی کبھی ہلکی پھلکی بارش بھی ہے۔ سخت سردی میں بند گھروں سے انسانوں کو باہر نکال دینا آسان نہیں دل گردہ چاہیئے۔ تو چنتے ہیں یہ اپنا لیڈر ۔ یہ لیڈر انکی نظر میں بہت بہادر ہے۔ یہ لیڈر پوری فلم میں ہر اہم فیصلہ لیا کرے گا یہ لیڈر ہیرو نہیں ہے۔ ہیرو ہیروئن بس سادہ سا جوڑا ہیں جو اس مشکل صورت حال میں ایک دوسرے کی ہمت بندھاتے ہیں انسانی ہمدردی رکھتے ہیں اور کچھ کچھ اس فیصلے کے خلاف بھی ہیں مگر خاموش ہیں۔ یہ ظالم لگے نا؟ مگر جانتے ہیں جو اپارٹمنٹ کمپلیکس تباہ ہوا وہ امیر طبقے کا تھا۔ اس زلزلے سے قبل یہ اپنے کمپلیکس کے قریب ان لوگوں کو پھٹکنے نہ دیتے تھے جن کے یہاں پناہ گزین بن کے آبسنا پڑا تھا انہیں۔ ظرف کی بات تھی بس۔۔ پھر یہ ہوا ظلم بربربیت جبر ہر ستم آزما کر ایک بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو نکال باہر کیا گیا اب خوراک کی رسد کافی تھی ایک ٹیم تشکیل دی گئ جس کا کام تباہ شدہ شہر میں روز جا کر کسی مارٹ کو کسی ریستوران کو لوٹ کر لانا ہے سامان جسے اس عمارت کے لوگ کھا سکیں۔ مگر کیا یہ اتنا آسان ہے؟اس عمارت سے باہر بھی تو کچھ لوگ بچ رہے تھے وہ اور جنکو انہوں نے نکالا وہ بھی تو شہر میں ایسے ہی اپنے لیئے کھانا ڈھونڈتے تھے۔ ایک لقمے کیلئے ایک دوسرے کی جان لینے کے در پے ایک پانی کی بوتل کی قیمتکسی کے جسم سے خون کا ایک ایک قطرہ بہا لینا تھی۔ عام سے انسان ہنگامی صورتحال میں صرف زندہ رہنے کیلئے کسی کی جان لے رہے ہیں سخت دل ہو گئے ہیں ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں اور کوئی دوسرے کی مدد نہیں کرنا چاہتا انکے نزدیک جو آج ہے وہ ہے بس کل کس نے دیکھی۔ اتنی دلگداز کہانی اتنے بے رحمانہ انداز میں زندگی کی منظر کشی کہ فلم دیکھتے ان عام انسانوں ان کرداروں سے نفرت محسوس ہونے لگی جنکو لگتا تھا دنیا ختم ہوگئ ہے اب کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔فلم مجھے بے حد پسند آئی Desi kimchi ratings: 5/5تجسس سنسنی، عکاسی سب بہترین ہے ضرور دیکھو سب۔ اب میرے کچھ دل کی باتیں۔ آہ پاکستان میں بھی ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جیسے 2005 کا زلزلہ ، پے در پے بم دھماکے ، پنڈی کا اوجڑی کیمپ کا واقعہ ، کئی جہازوں کے گرنے کے واقعات۔۔یوں لگتا تھا قیامت آگئ ہے۔ لوگ لوٹ مار بھی کرتے رہے مگر بہت بڑی تعداد میں ایسے بھی لوگ تھے جو مدد کیلئے آگے بڑھے۔کیوں؟ لوٹ کھسوٹ کرنے والے چند اور مدد کرنے والے ذیادہ کیوں تھے؟عجیب بات ہے نا کیا آپ جانتے ہیں ؟ جاپانی پاکستانیوں کے بہت پرستار ہیں۔ ایک بار انکے کسی شہر میں ایک ایٹمی گھر تباہ ہوا جاپانی خود بھی وہاں جانے سے گھبرا رہے تھے جب وہاں کی پاکستانی کمیونٹی آگے بڑھی اور امدادی کاروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اتنا کہ جاپانیوں نے پاکستانیوں کیلئے ہمیشہ کیلئے دل کے دروازے کھول دیئے۔ یہ واقعہ جاپانی افراد بڑے احترام و رشک سے سناتے ہیں۔ ہم ایسے کیسے ہیں؟بم دھماکے ہم نے جتنے جھیلے اسکا دنیا موازنہ نہیں کرسکتی ۔ اسپتالوں کے باہر ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی پہنچتی تھی جو خون دینا چاہتے ہوتے تھے، زلزلہ آیا تھا تو لوگ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آفٹر شاکس آئیں گےجوق در جوق آزاد کشمیر پہنچے، سیلاب آیا تو لوگوں نے اپنے گھر سے اضافی سامان نکال دیئے ۔۔کیونکہ ہم مسلمان ہیں ہمیں سکھایا گیا ہے یہ زندگی فانی ہے ہم نے مر جانا ہے جب موت آنی ہے تو چاہے اپنے گھر میں سکون سے بستر پر لیٹے ہوں ہم نے مر جانا ہے۔ تو ہم کل کا نہیں سوچتے۔ ہم بھروسہ رکھتے ہیں اس طاقت پر جو سب ٹھیک کرنے پر قادر ہے۔ ہم ہنگامی صورتحال میں یہ نہیں سوچتے کہ کل کیا ہوگا ہمیں کل کی یہی امید ہوتی ہے کل سب ٹھیک ہوجائے گا انشا اللہ۔ بس ایک یہی امید مجھے اس فلم میں ان لوگوں کے برتائو میں نظر نہ آئی۔ گھبراہٹ بے چینی بے یقینی کل کیاہوگا کا خوف ، کس پر بھروسہ کریں؟ کون سب ٹھیک کرے گا یہ سوال ان سے وہ سب کروا گیا جو وہ عام حالات میں کرنے کا سوچتے بھی نہیں۔۔کوریا نے بس یہ فلم بنائی ہے ہم نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ نہ زلزلوں سے ہار کر ہم نے شہر چھوڑے نہ بم دھماکوں سے گھبرا کر مسجدیں، امام بارگاہیں، گرجے، مندر،خانقاہیں ویران کیں، نہ اپنوں کو پلین کریش ، ریل کریش ، بم دھماکوں ، زلزلوں سیلابوں میں کھو کر زندگی سے ناطہ توڑا ، پھر ہمت باندھی پھر جی اٹھے پھر سے تنکا تنکا جوڑنا شروع کیا نیا آشیاں بنانے کیلئے۔ ہمیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر نہیں ہونا چاہیئے۔ ہم بڑی بڑی مصیبتوں سے نکلتے آئے ہیں آگے بھی سب ٹھیک ہو جائے گا انشا اللہ۔ پاکستان زندہ باد پاکستانی زندہ باد۔