Lovely runner
کل ختم ہوا اور بہت سے لوگوں کی طرح کل میں نے بھی سوچا یہ تین ہفتے یعنی چھے قسطوں قبل کیوں نہ ختم ہوا؟
کہانی ہے ایک تیس کے پیٹھے میں معزور لڑکی کی جو ایک کے پاپ بینڈ پر مرتی ہے بلکہ اس بینڈ کے حسین گلوکار پر مرتی ہے۔ایکدن اسے پتہ لگتا ہے کہ اس نے خودکشی کر لی حوا س باختہ اسکی گھڑی پہن کر اسپتال دوڑی جاتی ہے کہ راستے میں گھڑی سمیت ایک نالے میں گر جاتی ہے۔ گھڑی کا بٹن دبتا ہے اور وہ سیدھا پہنچی اپنی اٹھارہ سالہ عمر کے دور میں۔ یہاں اسکا ایک کام بس کہ کسی طرح مستقبل میں ہیرو کو مرنے سے روک لے۔ سارا ڈرامہ اسی طرح اسکی آمد و رفت جاری رہی ۔ ٹانگیں تو اس نے اپنی ٹھیک کر لیں مگر ہر بار واپسی پر ہیرو مر جاتا۔ اس آنے جانے میں اس نے سولہ اقساط پوری کردیں۔باقی کردار بھی تھے اس ڈرامے میں مگر اتنے ہی فالتو جتنا ہیرا منڈی سیریز میں فریدن کی اماں۔
کہانی سے سبق ملتے ہیں۔
پاکستانیوں کیلئے سبق۔۔
بھئی تم لوگوں کے دریا بیچے جا چکے اور جو باقی بچے انکا پانی بھی انڈیا بند باندھ کر روک چکا ۔ اب چاہے لاہور نہر ہو یا دریا راوی اس میں پانی خطرناک حد تک کم کیا ختم ہی سمجھو تو کودنے میں احتیاط رکھنا۔ ام سول گھڑی گما چکی ہے اور پانی کم ہے ہڈی پسلی ایک ہو جائے گی بنا سوچے چھلانگ مارنے سے۔ رہی بات شہروں کی تو ان میں نالے صرف گندے ہی ہیں ۔ ان گٹروں میں کود کر اٹھارہ سال پیچھے لوٹے تو وہاں کے دو رکے لوگ ناک بند کرکے تم سے دوربھاگیں گے۔ عین ممکن 2024 میں ہی آکر دم لیں۔
بیٹوں کے باپ کیلئے۔
بیٹے ایکدم ناکارہ ناہنجار ہوتے ہیں۔ گھر میں ٹکیں تو کسی کام کے نہیں الٹا انکو کھانا وانا کھلانے کی ذمہ داری الگ یا پھر گھر میں ٹکیں گے ہی نہیں کہ کسی کام آسکیں۔ ان انکل کو آنکھوں میں صابن کے ساتھ بھوکے پیٹ بیت الخلا میں اٹھارہ گھنٹے قید رہنا پڑا۔ وجہ بیٹے کے باپ جو ٹھہرے۔ انہوں نے فلش کے پانی سے منہ دھویا حالانکہ انکے اپنے کپڑے تھے تولیہ تھا جس سے منہ پونچھ سکتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ انکل بھی کبھی کسی کے بیٹے ہی تھے۔
بیٹیوں کی ماں کیلئے۔
اپنی ویڈیو کیسیٹ کی دکان میں فحش فلمیں رکھو نہ رکھو اپنی بیٹی کو دکان میں نہ رکھو اس سے پڑوسی لڑکے خراب ہوتے ہیں۔ موصوف نے لڑکی تاڑتے فحش فلم لیکر ابا پر الزام لگوا دیا۔ اس پورے قصے میں ہنسنے والی بات ڈھونڈنا ایسا ہے جیسے ہیرا منڈی میں درست تلفظ سے اردوبولنے والے اداکار/اداکارہ
جی ہے ہی نہیں۔۔
ام سول کی بھابی کیلئے۔
اپنی دوست کے گھر ذیادہ آنا جانا مت رکھو۔ ایک تو دوست نے اپنا محبوب ملتے ہی دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دینا تمہیں دوسرا تمہیں اسکے گھر وقت بے وقت جا کر اسکا گھامڑ گھونچو بھائی پسند آجانا جو کہ ویسے ہی خطرناک بات ہے۔ ام سول اتنی کمینی نکلی کہ دوست سے صرف نند بن کے رہ گئ۔ اتنی بار آتی جاتی رہی ذرا جو سہیلی کو کوئی فائدہ پہنچایا۔ الٹااپنے بھائی سے اسکا تعلق تڑوانے کی کوشش بھی کی۔ او بہن اس کوشش کی بجائے تم وقت کے سفر کے ساتھ جا کر اسکا کیرئر بھی بنواتی جاتیں۔ بیچاری اس کے بھائی سے شادی سے قبل والی قسمت میں اچھی نوکری اور گاڑی رکھتی تھئ اور ام سول کے ٹائم ٹریول نے اس سے گاڑی کے بدلے دو بچے تھما دیئے۔ اب بتائو کوئی بچوں پر سواری کرسکتا بھلا؟
ام سول کے بھائی کیلئے۔
ام سول کا بھائی دنیا کا سب سے بدقسمت لڑکا۔ ام سول کی ٹانگیں نہیں تھیں تو کارپوریٹ سیکٹر میں اچھی نوکری کرکے گھر چلا رہا تھا۔ بہن نے وقت کا سفر کرکے اسے ایک نکمے بیوی کی کمائی پرپلنے لاٹری نکلنے کا انتظار کرنے والے شیخ چلی میں بدل ڈالا۔ واقعی پھپھیاں ہی برباد کرتی ہیں ابا کو۔
ام سول کے پرانے عاشق کیلئے۔
پہلا کے ڈرامہ جس میں سائیڈ ہیرو کی زندگی بال بال بچ گئ۔ ایک کام بس اس ماسی پھتو نے صحیح کیا کہ ایک صحیح الدماغ سمجھدار معصوم لڑکے کی یادداشت کھودی۔ اسے اپنے عشق میں پاگل ہونے سے بچا لیا۔ورنہ تو جتنی بار واپس گئی نیا کوئی کٹا کھول آئی۔ اس لڑکے کا کیرئر بدل کر پاپ آئیڈل سے اچھا پولیس افسر بنا دیا۔ کم ازکم اب شہرت جاتی دیکھ کر خودکشی سے نہیں مرے گا کسی مجرم کا پیچھا کرتے موت آئے گئ۔
ہیرو کیلئے۔
اتنا پھسڈا ہیرو اگر پیارا نہ ہوتا تو پکا اسکوزن مرید کا خطاب ملتا۔ موصوف کو ام سول ام سول کرنے کی اتنی عادت تھئ کہ پہلی دفعہ ڈرامے کی ہیروئن کا ڈرامے میں نام یاد رہ گیا ورنہ ہیروئن و ہیرو کہہ کر کام چلاتی رہی ہوں۔ موصوف نے زندگی کا صحیح مقصد پا لیا۔ یہ جان گئے کہ ہر ذی نفس کو مرنا ہے۔سو ام سول کی ہر بار ماضی میں جا کر ماضی تبدیل کرنے کی کوشش ناکام کرتے حال میں آتے ہی مر جاتے۔ شائد یہ یہ گر پا گئے تھے کہ ایسی گٹھی لڑکی سے ساری زندگئ ساتھ نبھانے میں میری گردن سروائیکل کے درد کا شکار ہو جائے گی سو بہتر ہے مر ہی جائوں۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کس طرف اشارہ ہے۔
ہیرو کا کام یاد رکھنا بھولنایاد کر لینا سے آگے بڑھا ہی نہیں۔ آخری قسط میں تو دل کر رہا تھا اک دو لگا ہی دوں۔۔ سوائے اس پانچ فٹ تین انچ کے فتنے کو میٹھی میٹھی نگاہوں سے تکنے کے سوا کوئی کام ہی نہیں کیا ہیرو نے۔ سائیڈ ہیرو کے بعد سب سے ذیادہ ڈھیلا کردار ہیرو کا ہی تھا۔
ہیروئن کیلئے۔
شادی میں دیر ہو رہی ہے اچھے رشتے نہیں آتے کسئ باوا بنگالی کے پاس نہ جائو نہ لمبے وظیفے کرو بس پیلی چھتری خریدو زندگی آسان ہے۔ پیلی چھتری بیس بیس سال چلے گی اور لڑکے پٹاکر دے گی۔ان جیسے لوگ ہوتے ہیں جو ماضئ میں ہی ٹھیک رہتے۔ ماضی میں جتنئ نرم خو چلبلی اور سمجھدار لڑکی تھی جوں جوں بڑی ہوتی گئ چڑچڑی بدمزاج نخریلی اور کام چور ہوتی گئ ۔ ویسے ہم سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ٹین ایج میں جتنے اچھے گن پیدا کیئے ہوتے ہیں چن چن کے جوانی ان سب گنوں کو آزما کےکھاتی جاتی ہے نتیجہ میں اور آپ ۔۔
خیر اس بونگئ لڑکی نے ہزار بار واپس جا کے ایک ہی کام کیا وہ بھی کبھی ٹھیک طرح سے نہیں کر پائی۔ ایسی لڑکیاں ہوتی ہیں جو سسرال میں میکے کی ناک کٹوا دیتی ہیں۔
ولن کیلئے۔
اسکول کے زمانے میں ایک عدد بدنام بچہ ہر جماعت میں ہوتا تھا نا جو کبھی خاموشی سے سب سے پیچھے بیٹھا سبق بھی یاد کر رہا ہوتو پرنسپل کے کمرے کی میز پر رکھے پیپر ویٹ کے قالین پر گر جانے کی وجہ سے اسکو ملزم سمجھتے خوب مارا پیٹا جاتا تھا۔ یہ ولن بھی ایسا ہی بے چارہ تھا۔اس بے چارے نے گنتی کے چار نہیں چھے منظروں کیلئے مفت میں لعنتیں کھائیں۔ سائیڈ ہیرو اور ہیرو سے ذیادہ اسکا کردار بکواس تھا۔ موصوف ڈھنگ سے قتل کرنا نہیں جانتے تھے سو ثبوت سو گواہ چھوڑتے تھے۔ ایک قتل کرنے کے پیچھے تیرہ سال انتظار کرکے بھی ناکام رہ جانے والا گھونچو ہے۔ کبھی سنا ایسا ولن جس بے چارے کے مکالمے تک نہ لکھے گئے ہوں ایک قتل تک اسکے ذمے نہ دکھایا ہو پھر بھی اس پر دنیا جہان کی لعنتیں پڑیں ۔ منحوس اتنا ہو کہ پورا سیول اسکی شکل جانتا ہو اسکے انسٹا گرام کی پروفائل فوٹو وہ اسکیچ ہو جو چشم دید گواہ نے بنوایا ہو یاد کر کر کے۔ اسے سونگھ سونگھ کے ڈھونڈ کے نکال کے گرفتار کیا جائے اور وہ بس کے نیچے آکر اچھلے اور پل پار کرکے ہان دریا میں گر جائے۔ مجھے اس ولن سے دلی ہمدردی۔ خاص کر آخری قسط میں جس طرح اسکے ساتھ ذیادتی کرکے اگلے چالیس منٹ کی قسط مجھے دکھوائی گئ ہے مجھے اسکی شدت سے یاد آئی ہر اس گھسے پٹے رومانوی پے در پے جو واقعات امسول اور اسکے عاشق کے دکھائے اس میں کہ بس ایک بار وہ کہیں سے نکل کر آتا ان دونوں کو روک ڈالتا۔ میرے دوگنی رفتار اور دس بیس سیکنڈ آگے کرکے دیکھنے کے باوجود جو قیمتی زندگی کے قیمتی لمحات ضائع ہوئےانکا مداوا ہوتا ۔۔
ذاتی رائے۔
درجنوں روم کوم میں نے جس وجہ سے نہ دیکھے وہ وجہ آخری قسط میں بدرجہ اتم اور باقی اقساط میں اتنی دکھائی دی کہ مجھے محبت سے نفرت ہوگئ ہے۔ ( تھوڑے دنوں کیلئے) فیوی کول کے اشتہار کی مانند چپکو ہیرو ہیروئن نے پندرہ اقساط ایک طرف آخری قسط ایک طرف جو رومان کیا اس کے بعد لکھاری کی بس اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے والا جملہ لکھنے کی کمی رہ گئ۔ ایک طرف youth plus begin میں بلا وجہ کے غم ڈال کر لڑکے رلاتے رہے اس ڈرامے میں اس ڈرامے سے چند دکھ چرا کر ڈال دیتے تو توازن ہو جاتا پر حسرت ان غنچوں پر۔
Desi kimchi ratings: ⅘
لڑکے جو پیارے ہیں سب اس میں