الائیو
زومبی یعنی خون چوسنے والے مردوں پر مبنی فلمیں دیکھنا کسے پسند نہیں۔ اسی شوق میں تازہ ترین فلم الائیو بھی دیکھ ڈالی۔ ایک تو میں حیران کہاں کوریا بھرا پڑا پیارے پیارے اوپائوں سے وہاں انکو اس فلم کا ہیرو کن ہڑپہ کے کھنڈرات سے کھود کر نکالنے پر ملا۔چلو ملا ۔ پارک شن ہے بھی مل گئ۔ کہانی کیوں نہ ملی کہ یہ فلم اچھی بنا لیتے۔ کہانی بس یہ ہے کہ ایک عد دلڑکا ہے جو گھر میں اکیلا پڑا ہے جاگا تو شہر بھر میں وبا پھیلی تھی کرونا کی طرح اچانک مہلک اور سب کے سب شکار۔ موصوف کھڑکی سے جھانک جھانک کر باہر دیکھتے رہے سب کو خوں آشام مردوں اب بھئ مرد حضرات فالتو میں میرے پیچھے نہ پڑ جانا اب اینڈروائڈ کی بورڈ میں زیر زبر پیش کہاں لگتا یہاں مراد مردوں نہیں پیش کے ساتھ مردوں سے ہے۔ مرد خون پیتے کہاں ہیں جلاتے ہیں بس۔
ہاں کہاں تھی میں یہ لڑکا اکیلا پورے گھر کا مہینے بھر کا راشن کھا گیا ایک ہفتے میں ۔ اوپر سے منحوسیت الگ پھیلائی رو رو کے۔ وہی لڑکا جو گیمنگ میں لگ کر گھر والوں کے ساتھ گھومنے پھرنے تک نہ گیا اسکو موقع ملا پندرہ دن تک بس ٹھونسنے اور کھیلنے کا۔ مگر رو رو کے وہ پٹس مچائی اس نے اور باہر نکلنے کو بے تاب رہا۔ کہ آیک گھنٹے سے اوپر ہوگیا نا مر رہا تھا نا ہی باہر نکل رہا تھا۔ سخت جان تب جا کے خود کشی کرنے کیلئے پنکھے کیں پھندہ بنایا لٹک گیا مگر دم نکلنے ہی والا تھا کہ برا ہو پارک شن ہے کا کہ اسکے تھوبڑے پر لیزر لائٹ مار دی۔ ورنہ تو فلم یہیں ختم ہوجاتی نہیں تو میں بند کر دیتی۔
کہانی سے اسباق ملتے ہیں۔
ہیرو کیلئے۔
بھئ منحوس خود غرض اورکمینے بنو زندگی میں بلائیں خود گھر میں آکر گلے ملیں گی خون چوسنےکو۔ یہاں مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ کورین پب جی نہیں کھیلتے۔ اگر کھیلتے ہوتے تو یہ فلم دو گھنٹے سے تجاوز کرکے قسط وار ساتھ نبھانا ساتھیا سے بڑا سوپ سیریل بنتی۔ گیم کھیلتے اور ٹھونستے یہ لڑکا بور ہو گیا حد ہے۔ پب جی کھیلتا تو کھاتا بھی کم اور مگن بھی رہتا سال دو سال بعد خیال آتا تو باہر وبا بھی دم توڑ چکی ہوتی۔ ویسے کرونا سے ہمارا بھی یہی حال ہے سب کو پب جی کھیلنے پر لگا دینا چاہیئے۔
ہیروئن کیلئے۔
بی بی اپنے کام سے کام رکھنا سیکھو۔بھئی اکیلے گھر میں سائنسیں لڑا لڑا کر تم نے اپنی زندگی بچا لی سکھ نہیں تھا تمہیں؟ ہمدردی کا کیڑا کاٹا۔ اپنا کھانا اس بے کار لڑکے کو دے ڈالا اوپر سے اس احمق کے احمقانہ مشوروں پر عمل بھی کیا۔ موصوفہ نے اپنے آپکو تیس مار خان سمجھتے ہوئے بال پھینکنے کا عالمی ریکارڈ بنانے کا فیصلہ کیا۔ وہ بھی اس صورت میں کہ دو بڑی رہائشیی عمارتوں کے بیچ چوڑی بلا مبالغہ چار سڑکیں پار۔ دو رویہ دو سڑکیں چار بن ہی گئیں۔ناکام رہیں حسط توقع ہاں اپنے گھر ان بن بلائے مہمانوں کو دعوت دے ڈالی آئییے مجھے ہی کھالیں آکر۔
ولن کیلئے۔
جہاں دنیا بھر ایک دوسرے کو کھاتی پھر رہی ہے وہاں یہ گنتی کے دو چار بچ جانے والے لوگوں کو اپنی بیگم کو کھلا رہے کوئی حد ہے۔ اور پھر بیوی بیوی ہی ہوتی ہے سب سے آخر میں انکا ہی کیلجہ چبا ڈالا۔
ذاتی رائے۔
بھئ یہ فلم فلم ہے وہ بھی بہت بڑی۔شروع ہوئی آدھی ہوگئ مجال ہے جو کہانی رتی بھر بھی آگے بڑھی ہو۔یہ فلم ان نئے نا تجربہ کار اور کام چور ہدایت کاروں کیلئے مشعل راہ ہے جو نا اسکرپٹ پر محنت کرنا چاہتے نا اداکاروں پر اور پھر بھی کم خرچ بالا نشین فلم بنا دینا چاہتے ہیں۔ شہریار منور صدیقی کو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہیئے۔ایویں ابا کا پیسہ اور مشہور ہیروئنوں کو بھی اپنی سپر فلاپ فلموں میں ضائع کرتا ہے۔ پارک شن ہے کا کام بس ہیرو کو پھابو پھابو کہنا ہے۔
یہ کہانی کوریا میں ہی چل سکتی ہے جہاں پورا شہر زومبیوں میں گھرا مگر موبائل چل رہا ، کیبل ٹی وی انٹرنیٹ بجلی۔ سب میسر بس پانی نہیں تھا وہ بھی بارش سے جمع کر لیتے۔ ایسی سہولتیں پاکستانیوں کو میسر ہو جائیں تو وہ ایک مہینہ کیا سال بھر رہ لیں آرام سے گھر میں۔ کیوں غلط کہا میں نے؟ یہاں آکر ذرا ذومبی فلم بنا کر دکھائیں۔ لوگ ہنسی خوشی ذومبیوں کو اپنا کلیجہ کھلوا دیں بہ نسبت بنا بجلی پانی گیس انٹرنیٹ کیبل اور دیگر ضروریات زندگی کے بغیر رہنے سے۔ ان نا شکرے ہیرو ہیروئن کو ان تمام نعمتوں کے ساتھ گھر میں رہنا عزاب لگ رہا تھا ہماری طرح یہاں بنا ذومبیوں کے بھی جی کر دکھائیں تو مانوں۔
فلم گندی بھی ہے تھوڑی سی۔ جب ہیرو بچتا بچاتا پڑوسیوں کے فریج سے کھانا چوری کرتا ہے تو ڈھیر سارا نیوٹیلا چمچ میں بھر کر منہ میں ڈالتا ہے خوب چاٹتا ہے۔پھر خیال آتا ہے ہیروئن کا وہی ڈبہ ہیروئن کو ائیر پارسل کر دیتا ہے۔ مطلب کوئی حد ہوتی ہے۔ اتنی گندگی۔ موصوف نے پندرہ دن سے برش بھی نہیں کیا تھا کہ پانی نہیں تھا۔ آخ۔
Desi kimchi ratings: 4/5