Reply 1988
دیکھا
اور اس نتیجے پر پہنچی کہ جس طرح ڈراموں کو 18پلس 13 پلس فار کڈز جیسے درجوں میں بانٹا جاتا ہے اسی طرح اس ڈرامے کو بھی ایک عدد نئی صنف کا حصہ بنانا چاہیئے صرف گھر کے بڑے بچوں کیلئے یا گھر کے چھوٹے بچوں کیلئے یا کم از کم ڈرامے کے آغاز پر ایک عدد انتباہ یا ڈس کلیمر چلا دینا چاہیئے تھا کہ گھر کے منجھلے بچے اس کو نہ دیکھیں۔ مگر نہیں کوئی انتباہ نہیں اور میں دیکھ بیٹھی گھر کا منجھلا بچہ ہونے کے باوجود گو میں اب بچہ نہیں رہی ہوں پھر بھی بچپن کے ایک ایک دردناک حالات واقعات ذہن میں تازہ ہوئے آنکھیں بھر آئیں ہیروئن کے ساتھ خود بھی بھاں بھاں کرکے رونے کو دل چاہا ہائے۔ پہلی چار پانچ اقساط اور میرے آنسو ۔۔۔
کہانی ہے 1988 کی ایک گلی کی جس میں چار خاندان رہتے ہیں ان چار خاندانوں کے ایک ایک ہم عمر بچے کی آپس میں دوستی ہے۔ کہانی شروع ہوتی ہے پارک بوگم کے گھر سے جہاں تین فتنے دوست اسکے اسکے ہی گھر میں رہ کر اس پر حکم چلا کر کام نکلواتے ہیں اور چھے بجے ہی رات کے کھانے کیلئے سب کو آوازیں پڑنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اتنی عام سی کہانی کہ پہلی قسط بمشکل پوری کی اور بقیہ اقساط خودبخود پوری ہوتی چلی گئیں۔ پارک بوگم ایک ڈھیلا سا سوئی جاگی آنکھوں والا لڑکا ہے جو پہلی قسط کے بعد سے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگا اور آپ سائیڈ ہیرو کو ہیرو سمجھ بیٹھیں اور اتنا غلط بھی نہیں سمجھیں گے۔ تین لڑکے ایک لڑکی کی کہانی جس میں آخر تک جوڑے بنتے رہیں گے دوسرا لڑکا ہیرو بننے کی سب خصوصیات ہیں ۔نک چڑھا خوب رعب دار مگر ہیروئن پر چپکے چپکے مرنے والا، دوسرا لڑکا ایسا لڑکا ہے جو کے ڈراموں میں بھی نہ ملے گا۔ شکل کا اچھا شریف ماں کا خیال رکھنے والا بہن سے پیار کرنے والا مصلحت کوش جتنا بھی زلیل و خوار کر لو اگلے نے جھک مار کے پیچھے آنا اتنا وفادار ذہین فطین۔۔ اگر اسکا رشتہ کروانے بیٹھوں تو اپنے سوا کوئی اچھی لڑکی ذہن میں نہیں میرے آہم۔ تیسرا گھونچو مگر سب سے سمجھدار اور عقلمند حالات و واقعات کے ساتھ چلنے والا خود کو مستقل بہتر سے بہتر بناتا مگر مزاحیہ فالتو کردار بن کے مصنف کے دوغلے پن کا شکار۔ اور ہیروئن خالص روایتی پاکستانی لڑکی جسکو بس ایک عدد اچھا لڑکا چاہیئے بس زندگی کا مقصد ختم۔ سب کی شادیاں ہوںگی ہونے والی ہونگی اور ۔ یہاں تک کے جو ایک آدھ لنڈورا رہ جائےگا اسکو کہاں فٹ کریں یہ آپ خود زہن کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے سوچ لیں گے۔ ڈرامے میں جتنے بچوں کہ کہانیاں چل رہی ہیں اتنی ہی بڑوں کی بھی۔مگر کہانیاں کیا ہیں دماغ لڑانے پر بھی بیان کرنا نہیں آرہا دیکھ لینا بھئ کیا خرافات ہے۔ اس وقت جو جو ٹیکنالوجی یہ لوگ استعمال کرتے رہے ان میں سے آدھی سے ذیادہ تو آکر ختم ہوگئیں انکی جگہ نئی چیزیں آگئیں مگر پاکستانیوں کو نصیب تک نہ ہوئیں۔ جیسے پیجر۔ پاکستان میں پیجر کسی اکا دکا نے لیا بھی ہوا ہو اس زمانے میں جو کہ 9•99 فیصد ممکن ہے کہ ایسا ہوا نہیں ہوگا پھر بھی جو اعشاریہ صفر ایک کا موقع بنتا اس کے حساب سے بھی اگر کسی نے پیجر لیا تو خود کو خود ہی پیغام بھیج کر سنتا ہوگا۔ خیر شکر ہے نئے کے ڈرامے دیکھو تو سوائے اسکے کہ انکے پاس انٹرنیٹ کی رفتار اور سام سنگ ہوتا اور کسی چیز کو دیکھ کر انکھیں نہیں کھلتیں الحمد اللہ۔
کہانی سے کیا خوب سبق ملتے۔
سب بڑوں کیلئے۔
بھئ اپنی زندگی اور اسکی چک چک میں الجھتے رہو اپنے مسائل سے فرصت ملے گی تو بچوں پر دھیان جائے گا نا۔اور جب بچوں پر دھیان جائے گا تو احساس ہوگا بچے آپ سے دور ہو چکے ہیں اب آپکی باری ہے انکی دوریاں سہنے کی سو دوبارہ اپنی بک بک چک چک میں مصروف ہوجائو یہی بہتر حل ہے۔
سائیڈ ہیرو کے بڑے بھائی اور اسکی ہیروئن کیلئے۔
تم دونوں نے جو ہیرو ہیروئن کے چکر سے نکل کر اپنا چکر چلایا اس نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ کیا بتائوں۔ ہیرو ہیروئن مر رہے کٹ رہے کے ٹو سر کریں یا برمودا ٹرائی اینگل میں ڈبکی کھائیں ان دو معاون کرداروں نے خوب خوب فوٹیج کھایا مستقل اپنی الگ الگ کہانی چلائی اکٹھے ہوئے تعلقات ختم کیئے اور پھر مل گئے ۔ کیا خوب مزا چکھایا ڈرامہ رائٹر کو ایویں مرکزی کرداروں میں الجھاتے رہے سب کو ان دونوں نے سانجھے کی ہانڈی پکائی اور خوب مزے لیکر کھائی۔
سائیڈہیرو نمبر 1
کمال ہے اسکو سائیڈ ہیرو بنا دیا جبکہ ہیروئن پر چپکے چپکے مرتا رہا قربانیاں دیتا رہا ہیروئین کے سائیڈ ہیرو کے نام لکھا محبت نامہ آگے بھیجا اتنے اچھے صرف ہیروئن کیلئے نہیں بلکہ بھائی کیلئے بھی انتہائی پیار محبت کرنے والا بھائی دوست کیلئے چپکے سے قربانی دے ڈالی اور آخر تک فیصلہ صحیح ثابت ہوا۔ ایسی بونگی لڑکی جس کو کوئی بھی پٹا سکتا کہاں ملے گی۔ بس پہل کرکے اسکو حقیقت میں پٹا لیا ڈرامہ گیا بھاڑ میں یہ شوٹنگوں کے بعد ڈیٹیں مارتے رہے۔ کیا نا عقلمندانہ فیصلہ اس لڑکے نے۔۔ تھیبا
سائیڈ ہیرو نمبر 2
بہت اچھا ہونا بھی اپنے ساتھ بہت برا ہوتا۔ مخالف طبیعت کے لوگ مائل ہوتے ہیں ایک دوسرے کی۔جانب سچ ثابت ہوئی بات۔ اب ایک طرف یہ بھائی ہیں نہایت معصوم شریف ماں کے ہاتھ کا بدمزا کھانا کھا کھا کے بھی تعریفیں کرنے والے سیگریٹ تک نہیں پیتے ، ہیروئن جیسی سادہ معصوم محبت کرنے والی لڑکی کی بجائے مر مٹے اسکی بڑی بہن پر جو مکمل الٹ ہے۔ نک چڑھی فتنی تگنی کا ناچ نچانے والی مگر انکی سعادت مندی کا یہ عالم ڈیٹیں مارتے بھی نونا کہہ کر آپ جناب کرتے رہے اور محبت کا یہ عالم۔نونا صاحبہ نے وکالت کے امتحان پاس کرنے کیلئے تعلقات ختم کیئے جب وکیل بن گئیں تو واپس پہنچیں انکے پاس اورانکی محبت کا یہ عالم یہ کچے دھاگے میں بندھے چلے آئے۔ بھئی اتنے اچھے مت بنو کہ کسی کی معشوقہ محبت نامہ لکھ مارے جو تم بے چارے تک نہ پہنچے پھر بھی تم کامیاب عاشق کے ہاتھوں بلا وجہ تھک کے گھر آئو اور دھموکا کھا بیٹھو۔ مطلب بے چارے کو پتہ بھی نہیں مگر دھموکا کھایا۔
ہیروئین کی بڑی بہن سائیڈ ہیروئن کیلئے۔
رج کے کمینی اور خود سر بنو چھوٹے بہن بھائیوں کی ناک میں دم کرو اورانکی چیزوں پر تو قبضہ کرو ہی انکے دوست احباب پر بھی رعب جما کے رکھو تاکہ زندگئ میں کبھی بریک اپ کی نوبت آئے تو بیک اپ رہے۔ موصوفہ گھر والوں کی بلا وجہ لاڈلی ہیں۔ ہر طرح کے فائدے لیکر بھی انکے کسی کام نہ آئیں۔ ماشا اللہ
تیسرے سائیڈ ہیرو کیلئے۔
بہترین زندگی گزاری۔ نہ پڑھائی میں وقت برباد کیا نا محبت وحبت میں۔ سب دوستوں کے ساتھ مزے کیئے اور مزے سے شاندار کیریئر بھئ بنا لیا۔ بس بواسیر کروالی یہ نہ کرواتے تو بوگم کبھی ہیروئن نہ پٹا پاتا۔
ہیرو کیلئے۔
او بھائی کچھ نہ کر اور سب کچھ کر ہیروئن آپکی۔ یہ فارمولا کے ڈرامے کا ان پر فٹ بیٹھا۔ پورے ڈرامے میں سب کے راز اپنے کمرے میں کھلوائے جیسے کمرہ نہ ہوا اعتراف گاہ ہوا۔ موقع پرست اتنے کہ جہاں موقع ملا چھکا مارا۔ کیا بھئی خود سمجھو دیکھو مجھے شمو آگئ ہے۔ ہاں یہ موصوف ہمیشہ سے ہیروئن پر مرے مگر انکا پیار پاکستانیوں والا ہے جس سے پیار کرو اسکو اپنی نوکرانی بنا کر رکھو۔ بس وہ ایک دھموکا ذیادتی تھی بھئ۔ اتنی زور سے مارا تھا بے چارہ اوپا تڑپ گیا تھا
ہیروئن کیلئے۔
تم ایک امید کی کرن ہو سب منجھلوں کیلئے۔ قسم سے سب منجھلے اتنے ہی قربانیاں دینے والے معصوم اور زیادتیوں کا شکار ہیں جتنی کہ تم مگر تمہیں ملے رج کے سوہنے ہیرو اور سائیڈ ہیرو بس یہ امید کی کرن ہے ہمارے لیئے۔ جب تم اکٹھے کیک کٹوانے پر روئیں دھاڑے مار مار کے تب مجھے اپنی سالگرہ یاد آئی جب میری چھوٹی بہن کی سالگرہ والے دن مجھ سے بھی کیک کٹوا لیا جاتا تھا کہ اسکی مہینے کے شروع میں اور میری مہینے کے آخر میں آتی تھی۔ حق ہاہ۔ بچپن میں تو نہیں سچی ڈرامہ دیکھتے ہوئے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ منجھلوں کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔ اور وہ منظر جب گھر میں گیس بھری اماں ابا بڑی بہن چھوٹے بھائی کو اٹھا کر لے گئے تمہیں بھول گئے دل پر لگا۔ ہائے منجھلوں کو تو یہاں رشتے داروں کے گھر بھول آنے کا آج تک رواج ہے اگرمنجھلے کبھی سستی دکھائیں اور گھر والوں کی واپسی کے وقت آس پاس نظر نہ آئیں۔۔۔ ایک اور سبق بھئ اس ہیروئن نے دیا۔ اپنے دوستوں رشتے داروں گرد ونواح کے لڑکوں پر نظر رکھو انہی میں سے کوئی مستقبل کا سرتاج بن جائے گا اگر مستقل لائن مارتی کھاتی رہیں۔
ذاتی رائے۔۔۔
دیکھو بھئ پہلی قسط کسی طرح دیکھ لو تو آگے سب آسان ہے۔ منجھلے بچوں کا غم جس خوبصورتی سے بیان ہوا ہے اسکی آ ج تک کے ڈرامہ پاکستانی ڈرامہ میں مثال نہ ملی۔ بھئی ایسے مزید ڈرامے بنائو منجھلوں پر تاکہ ہم سے ناروا سلوک کا احساس ہو لوگوں کو وہ اپنے رویئے بدلیں۔ منجھلے بچوں کے گلے میں پلے کارڈ ہونا چاہیئے۔ اچھی طرح پیش آئیں کم از کم گھر سے باہر والے ہی ۔گھر میں تو ٹکے کی حیثیت نہیں۔کیا خوب کہا ٹرو بیوٹی میں ہیروئن نے کہ مجھ سے ذیادہ گھر میں سیور کی بو اہم ہے۔آخر میں اگر آپ منجھلے ہیں تو بتائیں کمنٹ میں گھر میں آپ سے ذیادہ اہم کیا ہے۔ ویسے ایک بات ماننے والی منجھلے اسی ہیروئن کی طرح قربانی دینے والے محبت کرنے خیال رکھنے والے ہوتے ہیں۔ منجھلوں کی قدر کرنی تو یہ ڈرامہ دیکھو۔ خود بڑے ہو تو ڈرامہ دیکھو اور اپنی غلطی سدھارو۔ چھوٹے ہو تو بھی ڈرامہ دیکھو اور منجھلوں سے شفقت سے پیش آئو۔ اور سب سے بڑھ کر سب والدین کو پکڑ پکڑ کر دکھائو شائد وہ بھی اپنی غلطی سمجھ جائیں۔بھی یہ ڈرامہ لازمی قرار دو سب کیلئے دیکھنا ہاں۔
DESIKIMCHI RATINGS : 4/5