Revenant
آہ کیا ڈرامہ تھا۔ آہ اسلئے کہ نا کوئی رومان نہ کوئی ہنسی مزاق بس اسکو دیکھتے آہ ہی نکلتی رہی دل سے۔پکا ڈرائونا ڈرامہ کہانی پر آتے ہیں۔ کہانی شروع ہوتی ہے ایک عدد پروفیسر سے جو گھبرائے گھر آتے ہیں اور کمرے میں بند ہو جاتے ہیں دروازے پر پوٹلیوں جیسی رسی بھی ٹانگ دیتے یہ رسی پورے کمرے میں حصار کی غرض سے ٹنگی ہے خیر۔ ۔تبھی دروازے پر بےتابانہ دستک ہوتی ہے۔ انکی والدہ پکار رہی ہوتی ہیں ساتھ دستک۔ اتنی تیز کہ یہ نا چاہتے ہوئے بھی دروازہ کھول لیتے ہیں۔سامنے کھڑے ہوتے ہیں یہ خود۔ اب سچ مچ والی والدہ بیٹے کے پیچھے آتی ہیں کیا دیکھتئ ہیں بیٹا کمرے کے بیچوں بیچ پھانسی کا پھندہ لگائے مرا ہوا ہے۔ اب پاکستانی گھرانہ ہوتا تو یہاں پنکھا لگا ہوتا ا س میں رسی ڈالنا آسان ہوتا مگر وزن لٹکنے کی صورت اکثر پنکھا نیچے آرہا ہوتا ہے اور بندے کی جان بچ جاتی انہوں نے جانے کمرے کے بیچ کس چیز میں رسی باندھی کہ انکا وزن سہار گئ۔یہ تھے ہیروئن کے ابا۔ اب ہیروئن کو پتہ لگتا ہے کہ جن ابا کو انکی والدہ سالوں قبل مار چکی تھیں اب مرے ہیں۔وہ جاتی ہے آبائی گھر۔ اب ایک دوسرے پروفیسر کو انہی ابا کا خط ملا میری بیٹی کا خیال رکھنا ٹائپ۔یہ بھی چل پڑے وہاں۔ دادی نے پوتی کو ابا کی وصیت کے مطابق ایک عدد بالوں میں سجانے والا پھندنا دیا پھندنا جیسا ہی ہے ۔ اس نے لے تو لیا مگر اسکی اماں تڑپ تڑپ گئیں اور اسکے ہاتھ سے لیکر وہیں پھینک دیا۔ گھر کو نکلتے ہیروئن کو ٹکرے وہ والے پروفیسر صاحب جنکو اسکے ابا نے خط بھیجا۔پروفیسر صاحب کو ہیروئن کے سائے میں نظر آئی کھلے کھڑے بالوں والی چڑیل بس یہاں سے مصیبت شروع ہوئی۔ اب ہیرو یا یوں کہہ لو ہیروئن کا ہم عمر کوئی پالو اپالو کہاں ہے ؟ رکو ذرا صبر تو کرو آئے گا۔ اور آخری قسط تک رہے گا اور بے رحم لکھاری کی وجہ ان دونوں کا رومان کا کوئی امکان نہیں۔
کہانی سے سبق ملتے۔۔
ایکسٹراز کیلئے
بھئی ضعیف العتقاد نہ بنو مگر بھوتوں پر یقین تو رکھو۔جھٹلانے میں سب ایسی ایسی موت مریں ہیں کہ بس کیا کہنے۔
امیروں کیلئے
غریب ہو جائو یہ بہتر ہے۔ آخر دنیا غریبوں سے بھری ہی تو ہے ۔
غریبوں کیلئے
امیر کبھی ہونا نہیں ہے۔ تو فالتو کے رسم و رواج کا حصہ بننے کا فائدہ۔
شیمن کیلئے۔
بھوت بنانے کا شوق ہو تو یاد رکھو اپنی اولاد کوئی نفع نہیں دیتی اپنا بنایا بھوت کیا نفع دے گا؟
امیر دادی کیلئے۔
اسی نوے سال کی زندگی کیلئے انہوں نے جتنی زندگیاں برباد کیں اس پر انہیں سلام ہے۔ اتنا خود غرض ہونا بھی آسان نہیں۔
نوجوان ہیرو کیلئے۔
لٹھ کے کر بھوت کے پیچھے پڑ جائو کہاں کا انصاف ہے۔ اس بندے نے بھوت کا جس طرح شجرہ نکالا آفرین ہے۔ایسا پولیس والا پاکستان میں ہو تو سارے جھوٹے پیروں فقیروں کی چھٹی۔ موصوف اتنی آسانی سے مرے ہوئے بھوتوں کو ڈھونڈ نکالتے زندوں کا بچنا تو ناممکن سمجھو ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے جرم کرتے ڈر لگتا بھئ ورنہ دو چار قتل کرکے چھپنا کیا مشکل ہے۔
پروفیسر کیلئے۔
پورا ڈرامہ جس طرح سے بھوتوں نے پاگل بنایا انکو انتقاما آخری منظر میں خود مر کر بھوت بننا چاہیئے تھا انکو انسان ہی دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ ایسا ناخلف بندہ ناشکرا جس دولت کیلئے اسکے آبا و اجداد نے قربانیوں کی مثال قائم کردی وہ سب اس نے بندر بانٹ کردی۔ دادی کی لاش اگر انکے رواج کے مطابق جلائئ نہ گئ ہوتی تو پکا اس اقدام پر قبر سے تڑپ کر باہر آجاتیں
ہیروئن کی اماں کیلئے۔
بھوتوں میں دلچسپی رکھنے والے سے شادی نا کرو بھی اس کے پیچھے پکا کوئی چڑیل بھی پڑی ہوگی۔
ہیروئن کیلئے۔
اف اتنئ مظلوم ہیروئن۔ جب تک ابا نہیں تھے زندگی میں کتے والی ہو رہی تھی ابا کا ذکر بھی شروع ہوا مزید کتے والی ہونے لگی اسکے ساتھ۔۔ ایسا ابا کہاں سے لبا بہن؟ بے چاری نے اتنے پاپڑ بیلے بھوتنی سے جان چھڑانے کیلئے کہ میں ہوتی بھوتنی کی جگہ ترس کھا کر خود اسے چھوڑ جاتی آخر اس پر سایہ کرنے کی وجہ سے اسکی سب تکلیفیں میرے علم میں ہوتی ہی مگر ایسی ڈاڈی ہیروئن کہ بھوتنی اچھی صحت یاب زندگی دے رہی اس نے مان کے نہ دیا۔ آخری منظر میں تو اسکی مظلومیت نے آنکھوں میں آنسو لا دیئے۔ یہ منظر نہ ڈالتے تو کیا تھا۔ اداس کردیا۔۔ اس ہیروئن نے ساری زندگی دوسروں کیلئے گزاری اور اب دوسروں کے ذریعے گزارے گئ کیوں ؟ دادی کی وجہ سے۔ بھئی دادیوں سے دور رہو۔ ایسی دادیاں تو پاکستان میں ہوتی ہیں پوتیوں کی دشمن۔ بھوت لگا دیا پوتی کے پیچھے۔اگر پوتا ہوتا تو اسے تو کبھی بالوں میں لگانے والا پھندنا یا بال بند نہ دیتیں کہ یہ تو لڑکا ہے۔ یہ کیا کرے گا او رکہانی پہلی قسط سے آگے بڑھتی ہی نا۔ ویسے میری دادی ہوتی نا تو اگر ابا نے کوئی تحفہ مجھے ہی دیا ہوتا تو بھی اسے مجھے نہ دیتیں بھائی کو دیتیں۔ اتنا فرق کرتی تھیں ۔ایک بار تو۔۔ چلو رہنے دو دادی کے مظالم پھر کبھی سہی
گائوں کے گھرانے کیلئے۔
ہمیشہ سنا درمیان کے بچوں کی کتے والئ ہوتی ہے پہلی دفعہ دیکھا سب سے بڑی اولاد کی کتے کیا بھوت والی کروائی۔شائد اسلیئے کہ دو ہی بیٹیاں تھیں۔بیٹا اتنا غیر ضروری تھا کہ کسی اداکار بچے کو لیا ہی نہیں اسکی موجودگی ثابت کرنے کیلئے۔
بھوک مٹانے کیلئے انسانی قربانی دی گئ اور جس گھرانے نے دی وہ ہی صفحہ چٹ ہوگیا ۔ مطلب اس سے بہتر تھا بھوکے رہتے مرہی جاتے مرنے کیلئے محنت نہ کرنی پڑتی
بھوتنی کیلئے۔
آہ اتنی مظلوم بھوتنی کہ پورا ڈرامہ گالیاں کھاتی رہی سب سے لعنتیں سمیٹتی رہی پتہ لگا وہ تو بھوتنی بنی ہی نہیں۔ ایسے موقع پر کہاجاتا طویلے کی بلا بندر کے سر۔ خیر اصل بھوتنی کے ساتھ بھی کچھ اچھا نہیں ہوا جتنا برا ہوا ایک ایک قتل بنتا تھا اسکے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے۔ بلکہ دو چار اورقتل بھی بنتے تھے۔
ذاتی رائے۔۔
ساتھ ساتھ دیکھا ڈرامہ ایک ایک ہفتے کا وقفہ آتا تھا ورنہ میں نے ایک نشست میں ختم کرنا تھا تم لوگ مت کرنا بارہ گھنٹے کسی موبائل کی بیٹری نہیں چلتی بھئ۔ بہت اچھا ڈرامہ کم تیری نے ایسی اداکاری کی ہے کہ شک گزرا کہ آخر میں پتہ لگے کہ بھوتنی کوئی تھی ہی نہیں ہیروئن خود بھوتنی ہے صحیح بتا رہی ہوں۔ پروفیسر صاحب اور ہیرو نے بھی کمال کر دیا ہے۔ ہیرو ویک ہیرو کلاس میں جیسا آیا تھا اسکے برعکس اسکو ہیرو کا موقع ملا ہے تو اندازہ ہوا بندے میں اداکاری کے جراثیم ہیں بھئ وہ بھئ خوب طاقتور۔ دونوں کردار ایک دوسرے سے الٹ اور دونوں بہترین نبھائے۔ دیکھو پوری کوشش کی ہے کوئی کہانی کا راز نہ کھولوں تم لوگ دیکھ ہی لو
Desi kimchi ratings: 5/5
اب اور کیا کہوں واقعی مزے کا ہے۔